|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2017

میر حاصل خان بزنجو حال ہی میں حیدرآباد آئے۔ ان کے بقول ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ بلوچستان میں 12مئی کو قتل کئے جانے والے محنت کشوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر ، سندھ کے لوگوں سے تعزیت کریں اور افسوس اور ندامت کا اظہار کریں۔

ان کے الفاظ میں گوادر میں جو قتل عام ہوا اس پر شرمندہ ہوں اور سندھ کے عوام سے معافی مانگتا ہوں ‘‘۔ حیدرآباد پریس کلب نے ان کے ساتھ میٹ دی پریس کا اہتمام کیا تھا۔ میٹ دی پریس کا مقصد سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہوتا کہ مسائل پر مہمان کے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں مسائل کو گہرائی سے سمجھا جا سکے۔ لیکن شرکاء میٹ دی پریس کو ایک عمومی پریس کانفرنس بنا دیتے ہیں۔

صحافیوں کو یہ کیوں نہیں سمجھنا چاہئے کہ بلوچستان گزشتہ ایک عشرے سے زیادہ سے کس مشکل کا شکار ہے، اپنوں اور غیروں کا کردار کیا ہے۔ قتل و غارت گری معمول کیوں بنی ہوئی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہ داری (سی پیک) سے بلوچستان کو کیا فائدہ ہو سکے گا۔ کیا بلوچستان میں واقع بندر گاہ گوادر بلوچستان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو گی بھی یا نہیں۔ کیا سی پیک کی وجہ سے بلوچستان میں آبادی کا توازن بگڑ جا نے کا خطرہ ہے جو بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کر دے گا۔

سی پیک کا پاکستان کے حکمرانوں میں بڑا چرچا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سی پیک کے معاہدوں کے بارے میں کسی بھی صوبائی اسمبلی میں کوئی گفتگو نہیں کی گئی ہے۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی کو اعتماد میں لینا نہیں چاہتے ہیں اور وزرائے اعلیٰ جو حال ہی میں وزیر اعظم کے ساتھ چین کے دورے پر گئے تھے ، اپنی اپنی اسمبلیوں کو آگاہ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ چینی حکومت کا تقاضہ تھا کہ صوبوں کی حکومتوں کے سربراہ بھی آئیں اور معاہدوں پر دستخط کریں۔

گوادر کی بندر گاہ چالیس سال کے لئے کن شرائط پر چین کو لیز پر دی گئی ہے ، چین کے غیر سرکاری ادارے پاکستان میں کن بنیادوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں، پاکستان کے قدرتی وسائل کے استعمال کے معاملے میں چین کو کتنی سہولت دی گئی ہے یا دی جائے گی۔ چین کی سرمایہ کاری یا قرضوں کی واپسی کی کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ وغیر ہ وغیرہ۔

بلوچستان کے حالات، دہشت گردی، انتہا پسندی وغیرہ کو گوادر کی بندر گاہ، سی پیک کے تحت منصوبوں سے بنیادی تعلق بنتا ہے۔ بدھ کے روز کوئٹہ میں چینیوں کا اغوا بھی اس قیاس کو تقویت دیتا ہے۔

میر حاصل خان نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں نیشنل پارٹی کے نمائندہ وفاقی حکومت کرنے والی سیاسی جماعت ن لیگ کے ساتھ اتحاد کر کے آدھی مدت بلوچستان میں عبدلمالک بلوچ وزارت اعلیٰ پر فائز رہے۔ نیشنل پارٹی ابھی بھی حکومت کا حصہ ہے۔ حاصل خان خود بھی وفاقی وزیر ہیں۔

ان کے والد مرحوم میر غوث بخش بزنجو پاکستان کے ایک قابل قدر سیاست دان تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے عم عصر سیاست دانوں میں سیاست کو سمجھنے والے ایک سیاست دان قرار دئے جاتے تھے۔ سن ستر کے انتخابات کے نتیجے میں جب حکومت سازی ہوئی تو صوبہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کو حکومت سازی کا موقع ملا۔

غوث بخش اسی کے نتیجے میں گورنر مقرر ہوئے تھے۔ غوث بخش کے صاحبزادے ہونے کے ناطے حاصل خان نے سیاست اور اس کے پیچیدہ اور ناہموار راستوں کو قریب سے دیکھا ہے اور بلوچستان میں بیٹھ کر سیاست کرنا ایک دشوار گزار معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ 1990سے وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی رکنیت ہو یا سینٹ کی رکنیت، وہ وفاقی دارالحکومت میں زیادہ عرصہ موجود ہوتے ہیں۔

بلوچستان کے حالات پاکستان کے لئے باعث اطمینان نہیں ہیں۔ بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور وسائل کے اعتبار سے دیگر صوبوں سے بہت زیادہ امیر ہے۔ بلوچستان میں ایسے وسائل موجود ہیں جو دوسرے صوبوں میں نہیں ہیں۔ اس کے یہی وسائل اغیار کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔

اندرون صوبہ بھی سیاسی حالات کو سیاسی اصولوں اور ضابطوں کے تحت نہیں چلایا گیا بلکہ سن سترمیں علیحدہ صوبہ کا تشخص پانے والے بلوچستان کو پاکستانی حکمرانوں نے ایک کالونی سے زیادہ کی حیثیت نہیں دی۔ بلوچستان کے سرداروں نے قدم قدم پر حکمرانوں کا ساتھ دیا تاکہ بلوچستان کی حکمرانی میں اپنا حصہ لے سکیں۔

قبائلی سردار خوشحال ہوئے لیکن ان کے قبائل کے لوگ غربت کی لکیر کے نیچے ہی رہے۔ انہیں کبھی وہ سہولتیں تو بڑی بات ہے، خوراک بھی میسر نہیں ہوئی جو ان کے سردار رات دن کھاتے ہیں۔ پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے لیکن حکومتوں نے اس پر کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔

جعلی اعداد و شمار کے ذریعہ یہ ہی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں غربت میں کمی آئی ہے۔ بلوچستان کی بات کیا کریں سندھ میں ریگستانی ضلع تھرپارکر اور پنجاب میں سرائیکی علاقوں میں کوئی جا کر دیکھے کہ لوگ زندگی کس طرح گزارتے ہیں۔ سندھ اور پنجاب تو ترقی یافتہ صوبے تصور کئے جاتے ہیں۔

حاصل خان بلوچستان کی بات کر رہے تھے۔ ہم یہ سمجھنا چاہتے تھے کہ آخر بلوچستان میں سندھ کے محنت کشوں کو بار بار کیوں قتل کیا جاتا ہے۔ وہ تو اپنے گھر بار چھوڑ کر محنت مزدوری کرنے جاتے ہیں۔ سڑک کی تعمیر کوئی آسان کام نہیں ہوتی۔ جس سڑک پر یہ محنت کش کام کر رہے تھے وہ بلوچستان حکومت کا منصوبہ ہے۔

اس کا گوارد یا سی پیک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حاصل خان کہہ رہے تھے کہ ’’ بلوچستان کو دو طرح کی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک تو وہ عناصر ہیں جنہیں علیحدگی پسند کہا جاتا ہے اور دوسرے وہ ہیں جنہیں مذہبی انتہا پسند قرار دیا جاتا ہے۔ بھارت کی جانب سے علیحدگی پسندوں کی حمایت ثابت کرتی ہے کہ دہشت گردی کو بیرونی حمایت حاصل ہے‘‘۔

انہوں نے یہ بات بھی کی کہ افغانستان میں سندھی نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ یہ نوجوان وہاں کیا کررہے ہوں گے ، یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ ساتھ اب تو افغانستان اور ایران بھی پاکستان کے ساتھ بوجوہ دشمن سے زیادہ دشمنی والا رویہ اختیار کر گئے ہیں۔

حاصل خان کے مطابق ان رویوں کو بھی فوری تبدیل کرانے کی ضرورت ہے۔ میر حاصل خان کی معافی یا معذرت یا شرمندگی اپنی جگہ لیکن قائد اعظم یونی ورسٹی میں جو کچھ ہوا اس پر تو سب ہی کو نادم ہونا چاہئے۔

یونی ورسٹی کے طلباء بھی اگر اس طرح کے اقدامات کریں کہ ان کے اپنے 35ساتھی زخمی ہوجائیں تو کیا اسے بھی علیحدگی پسندوں کی کارستانی قرار دیا جائے یا یہ معاملہ فہمی کی کمی کہا جائے۔ کیا یہ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یونی ورسٹی کے طلباء کی نظر میں قانون کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے۔

حاصل خان نے اہم بات یہ کی کہ ریاست کے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جب وہ ریاست کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں معاشرے کے تمام ادارے اور طبقات ہوتے ہیں، تمام شعبوں سے تعلق رکھنے و الے لوگ ہوتے ہیں۔

سیاست داں، سیاسی جماعتیں، حکومت، صحافی، وکلاء ، دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، وغیرہ۔ جولائی 2012 میں لکھے گئے کالم تماش گاہ میں اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے جو بلوچستان جاکر کسی امتیاز کے بغیر لوگوں سے ملیں۔

ان کے ساتھ گفتگو کریں ، ان کی سنیں، انہیں سنائیں تاکہ بلوچستان دلدل نہ بنے۔ اس تماش گاہ میں اختیارات رکھنے والے بوقت ضرورت مسائل کو حل کرنے کے لئے وقت نہیں دے پاتے ہیں اور اختیارات سے محروم لوگ قتل ہونے سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔