|

وقتِ اشاعت :   June 11 – 2017

سید خورشید شاہ صاحب، ہمارے ہاتھوں میں سے کتاب لیکر جھاڑو تھمادیا گیا اور یہ نیشنللائزیشن کا نتیجہ تھی۔ قومی اسمبلی میں جمعیت علما ء اسلام کی رکن اسمبلی آسیہ ناصر نے عیسائی برادری کی نمائندگی کا حق خوب ادا کیا۔ وہ سندھ کے شہر عمرکوٹ میں ایک کرسچن سینیٹری ورکر سے تعصبانہ رویے اور اس کی ہلاکت پر نکتہ اعتراض پر احتجاج کر رہی تھیں۔

قومی اسمبلی میں ویسے تو شیری رحمان ، شیریں مزاری سمیت درجن کے قریب ترقی پسند تصور کی جانے والی خواتین اور حضرات موجود ہیں لیکن اسلام آباد سے لیکر سندھ اسمبلی تک اس واقعے پر ایسا لگتا ہے کہ خاموشی ہی خاموشی ہے۔ سندھ اسمبلی میں ویسے بھی 9 اقلیتی اراکین میں سے صرف ایک عیسائی تھا وہ بھی مستعفی ہوکر پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی آسیہ ناصر نے اپنی تقریر میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا بھی حوالہ دیا اور بتایا کہ پچھلے دنوں اخبارات میں ایک سینیٹری ورکرز کی بھرتی کے لیے اشتہار شایع ہوا ہے، جس میں حلف نامہ دیا گیا ہے کہ وہ گیتا اور بائیبل کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ وہ صرف سینیٹری ورکرز کا کام کریں گے۔ جس پر آسیہ نے خورشید شاہ سے سوال کیا کہ سندھ میں کیا اقلیتوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے عمرکوٹ میں مذہبی عدم رواداری کے ایک واقعے نے سندھی سوسائیٹی کو ایک بار پھر جھنجھوڑ دیا ہے، ویسے شکارپور، جیکب آباد اور سیون میں بم دھماکوں کا لنک بلوچستان سے جوڑا گیا ہے لیکن جو ذہنی تبدیلی آرہی ہے۔ اس کو کس سے جوڑا جائے۔

عمرکوٹ میں یکم جون کو 35 سالہ عرفان مسیح اپنے دو ساتھیوں سمیت گٹر کی صفائی کے دوران بے ہوش ہوگئے تھے،انہیں ہسپتال پہنچایا گیا تھا، جہاں وہ دم توڑ گئے۔ عرفان کے کزن پرویز مسیح اس وقت ہسپتال میں موجود تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب وہ عرفان اور دیگر کے ساتھ پہنچے تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر یوسف نے کہا کہ یہ کیچڑ میں بھرا ہوا ہے، اس کو نہلا کر صاف کراؤ میں، روزے میں ہوں، میرے کپڑے خراب ہو جائیں گے۔’ اس کے بعد دو اور ڈاکٹرز، اللہ داد اور ڈاکٹر جام کنبھار آئے لیکن ان دونوں نے بھی طبی امداد نہیں فراہم کی۔ اس دوران عرفان ہلاک ہوگیا۔

عرفان مسیح کی والدہ ارشاد مسیح کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کے پاس تو گندگی سے بھرے مریض بھی آتے ہیں اور صاف ستھرے بھی۔ ہسپتال میں اس وقت تو ماں اور باپ دونوں وہ ہی ہوتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر ان کے بیٹے عرفان کی جگہ کسی امیر کا بچہ ہوتا تو کیا اس کی کیئر نہیں ہوتی چونکہ میرا بچہ غریب تھا اس وجہ سے اس کی کوئی کیئر نہیں۔

جس وقت ارشاد مسیح اپنی یہ کہانی بتا رہی تھیں، اس وقت پڑوس کی خواتین انہیں ہمت دلانے کے لیے موجود تھیں، تین روز تک عمرکوٹ میں صفائی بھی نہیں ہوئی تھی کیونکہ سینیٹری ورکز اپنے ساتھی کی موت پر سوگوار تھے۔

عرفان مسیح کی والدہ ارشاد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ایک مرتبہ کوشش کرتے تو اس موت کا مجھے دکھ نہیں ہوتا اگر مقدر میں جدائی لکھی تھی تو ہوجاتی لیکن وہ اپنی طرف سے کوشش تو کرتے۔عمرکوٹ میں مسیحی برادری کی ستر کے قریب گھر ہیں اور اکثریت شہر میں سینیٹری کے کام سے وابستہ ہے۔

میونسپل نے انہیں 15 کے قریب کوارٹر دیئے تھے جو کالونی اب چالیس گھروں پر مشتمل ہوچکی ہے، یہاں ایک چھوٹے سے ہال میں مذہبی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں جبکہ کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے ان مسیحیوں کا تعلق کنری کے چرچ سے ہے۔

برصغیر میں ہندو مسلم ہم آہنگی کے خالق شہنشاہ اکبر کی پیدائش بھی عمرکوٹ میں ہوئی تھی ، سوال یہ اٹھتا ہے کہ عرفان مسیح سے پیش آنے والا واقعہ کوئی انفرادی واقعہ ہے یا یہ کوئی کوئی مائینڈ سیٹ ہے۔

عمرکوٹ میں تین دہائی قبل تک مسلمان اور ہندؤں کے لیے الگ الگ ہوٹل ہوا کرتے تھے، جن میں سے بعض ہوٹلوں پر شیڈیول کاسٹ کے لیے الگ برتن اور چائے کے کپ رکھتے جاتے، جنہیں گولڈن کپ کہا جاتا تھا۔ ان ہوٹلوں کے مالکان زیادہ تر ہندو ہی ہوتے تھے۔

اسی طرح چند سال قبل تک یہاں گائے کا گوشت فروخت نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے، یہاں ایک دکان کھل چکی ہے لیکن گلیوں میں کئی گائیں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں جن کا دودھ ختم ہوجانے کے بعد مالکان نے بے گھر کردیا ہے۔

محرم الحرام میں یہاں کی تمام امام بارگاہوں کا انتظام مقامی ہندو کمیونٹی کے پاس ہوتا ہے جبکہ سبیلیں اور نظر نیاز بھی یہاں عام ہیں، آس پاس کے علاقے میں ہندو ذاکر روی شنکر اور ہیمن داس حیدری مجالس پڑھتے ہیں۔

ضلعے میں سوشل فیبرک ماضی میں کافی مضبوط رہا ہے خوشی و غمی دونوں کمیونیٹیز کا آنا جانا تھا ، شادی بیاہ میں الگ سے کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے اور اس میں عقیدے کا خیال کرتے تھے۔

یہاں زمینداروں کی اکثریت مسلمان ہیں جبکہ کسان زیادہ تر ہندو شیڈیول کاسٹ سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ سبزی اور فروٹ کے آڑتی زیادہ تر ہندو کمیونٹی سے ہیں۔ اس کے علاوہ زرعی ادویات ، میڈیکل اسٹور ، کپڑے کے کاروبار سے لیکر موبائیل میڈیکل اسٹور تک کا زیادہ تر کاروبار ہندو کمیونٹی کے پاس ہے لیکن اب اس میں مسلمانوں کا بھی حصہ بڑھ رہا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے یہاں سے جبری مشقت اور زمینداروں کے نجی جیلوں کی شکایات عام رہی ہیں اور جن زمینداروں کے خلاف یہ شکایات کی گئیں وہ مقامی طور پر بڑا سیاسی اثر رسوخ رکھتے ہیں، شکایت کرنے والا کسان ہندو اور زمیندار مسلمان ہے جس نے دونوں میں تلخی پیدا کی ہے۔

گزشتہ دس پندرہ سالوں میں کاوباری تنازعات نے بھی ایسی شکل اختیار کی جس سے دونوں کمیونیٹیز میں کشیدگی میں اضافہ ہوا، 2004 میں تاجر رام لال مھشیوری کو قتل کرکے لاش دفن کردی گئی تھی، بعد میں یہ لاش مقامی زمیندار کی اوطاق سے ملی تھی جو مسلمان تھا اور سیاسی طور پر بااثر تھا۔

2012 میں اکھاڑا سمادھی مندر کے قریب دکان کی تعمیر پر کوشش کی گئی ، جس پر مقامی آرائیں برادری نے صورتحال کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی اور ایس ایم ایس پیغام پھیلا کر لوگوں کو ہندو کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی گئی۔

اگست 2014 میں دو ہند تاجروں اشوک کمار مالھی اور ہیرا لال مالھی کو مبینہ ڈکیتی پر مزاحمت کرنے پر شہر میں قتل کردیا گیا، جس کے خلاف کئی روز کاروبار بند رہا اور قومی اسمبلی تک احتجاج کیا لیکن یہ کیس آج بھی بلائنڈ ہے۔

تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی لال مالھی کا کہنا ہے کہ یہاں جو سیاسی، کاروباری یا پراپرٹی کا کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو وہ مذہبی شکل اختیار کرلیتا ہے کیونکہ سامنے والا فریق جانتا ہے کہ اس معاملے میں اقلیتی کمیونٹی پیچھے ہٹ جائے گی۔

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق عمرکوٹ میں کل ووٹروں کی تعداد 3 لاکھ 86 ہزار ہے جن میں سے 49 فیصد اقلیتی ووٹر ہیں، ان اعداد و شمار کے باوجود سیاست پر مسلمانوں کی بالادستی ہے اور سیاسی جماعتیں ان میں سے ہی اپنے امیدوار نامزد کرتی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل یہاں کی مضبوط سیاسی جماعتیں رہی ہیں جبکہ قوم پرست اور ترقی پسند کارکنوں اور ادیبوں کا بھی اثر رسوخ رہا ہے۔ پیر پاگارہ کے علاوہ صوفی سلسلے مخدوم شاہ محمود قریشی کی غوثیہ جماعت اور ہالا کے مخدوموں کے مرید بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔

جمعیت علماء اسلام کے مدارس، کالعدم سپاہ صحابہ کی موجودگی کے علاوہ بریلوی تنظیمیں بھی اب واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں، عمرکوٹ سے صرف 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے پیر سرہندی کا گاؤں واقع ہے جہاں ہرسال درجنوں افراد مذہب تبدیل کرتے ہیں جن میں زیادہ تر نوجوان ہندو لڑکیاں ہوتی ہیں۔

سندھ اسمبلی نے جب جبری مذہب کی تبدیلی کے خلاف بل منظور کیا تو اس کے مخالفین میں یہاں کے پیر ایوب جان سرہندی بھی پیش پیش تھے۔ موجودہ وقت یہ بل ترمیم کے نام پر روک دیا گیا ہے۔ایم این اے لال مالھی کا کہنا ہے کہ جوائنٹ الیکٹوریل کے بعد ہندو اقلیتی ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر سامنے آیا ہے اور اس کا سیاسی وزن بڑھا ہے، یعنی اب مقامی سیاست دان کو پسند ہو یا نہ، اس کو بات سننا پڑتی ہے۔

عمرکوٹ کو تھر کا گیٹ وے کہا جاتا ہے مسلسل قحط سالی کی وجہ سے یہاں تھر سے لوگ آکر آباد ہوئے جبکہ تعلیم اور صحت کی سہولیات کی وجہ سے عمرکوٹ شہر اور آس پاس کے دیہی علاقوں کے لوگوں نے بھی یہاں کا رخ کیا۔ جس سے یہاں کی قدیم سوسائیٹی میں تبدیلی آرہی ہے۔

گزشتہ سال بلاول بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی میزبانی میں عمرکوٹ میں ہولی کے تہوار میں شرکت کی تھی اور اپنے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ایسا پاکستان نہیں چاہیے جو مسلمانو ں کے لیے الگ اور ہندؤں کے لیے الگ ہو اگر ایک مسلمان انڈیا کا صدر ہوسکتا ہے تو پھر پاکستان میں کیوں کسی اہم منصب پر اقلیتیوں میں سے تعینات نہیں کیا جاتا۔

عرفان مسیح کے خاندان کو حکومت سندھ نے دس لاکھ رپے معاوضے اور ایک ملازمت دینے کا اعلان کیا ہے، لیکن عرفان کی والدہ ارشاد مسیح انصاف بھی چاہتی ہے اور کہتی ہیں کہ جب تک ڈاکٹروں کو سزا نہیں ملے گی کسی اور کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آسکتا ہے۔

عمرکوٹ تھانے میں عمرکوٹ ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر جام کنبھار، آر ایم اور ڈاکٹر یوسف اور ڈیوٹی ڈاکٹر اللہ داد راٹھوڑ پر غفلت کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں سے انہوں نے ضمانت حاصل کرلی اور آج بھی اپناڈیوٹی کر رہے ہیں۔

ان کی حمایت میں پیرا میڈیکل اسٹاف نے ہڑتال بھی کی جبکہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی ٹیم دونوں فریقین کے بیانات ریکارڈ کرچکی ہے۔ جس میں ڈاکٹروں کا موقف ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ پہلے عرفان کو نہلاؤ پھر علاج کریں گے باوجود اس کے یہ ویڈیو موجود ہے، جس میں اہل خانہ اپنے بے ہوش لوگوں کے جسم صاف کر رہے ہیں۔

ہسپتال انتظامیہ نے مسیحی برادری کے خلاف انسداد دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ درج کرنے کے لیے تھانے پر بھی درخواست دی دہی ہے، جس میں کہا ہے کہ وہ ڈاکٹروں پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور ساتھ میں لاٹھیوں اور تیزاب بھی لائے۔

عرفان مسیح کی ہلاکت میں کس کی غفلت اور تعصب ہے، اس میں ٹاؤن کمیٹی حکام کو مکمل تحفظ حاصل ہے جنہوں نے بغیر حفاظتی اقدامات کے سینیٹری ورکرز کو کئی فٹ زیر زمین گٹر لائن میں اتار دیا۔ سندھ کے ہر شہری میں ایسے سینیٹری ورکرز آباد ہیں جن سے لوگ صرف اتنا تعلق رکھتے ہیں کہ وہ ان کے گھر، علاقے اور دفتر کو صاف رکھیں۔ جبکہ خود یہ کمیونٹی ایک آئسولیشن وارڈ کی طرف زندگی گزار رہی ہیں۔