|

وقتِ اشاعت :   June 11 – 2017

روزنامہ آزادی کے مدیر صدیق بلوچ کی ذاتی زندگی سے آشنا ہوئے بغیر ہم روزنامہ آزادی کو صحیح معنوں میں سمجھ نہیں سکیں گے اس لئے ضروری ہے کہ اس کی زندگی کے متعلق اہم معلومات سے آگاہ ہوسکیں۔

صدیق بلوچ ایک بہترین فٹبالر تھے 60 کی دہائی میں مشہور کراچی کی معروف ٹیم کے کر اچی محمڈن کی طرف سے فٹبال کھیلتے تھے اس دوران انہیں ملازمت کی پیشکش بھی ہوئی مگر صدیق بلوچ نے انکار کیا کیونکہ صدیق بلوچ کا مقصد ایک اجتماعی عوامی مفادات سے جڑی سوسائٹی کی تشکیل تھی۔

70 کی دہائی میں انہوں نے نیپ کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کیونکہ نیشنل عوامی پارٹی کا مقصد محکوم مظلوم عوام کو حقوق دینا تھا۔

70 کی دہائی میں نیپ کی حکومت بلوچستان میں برسراقتدار آئی تو صدیق بلوچ کی علمی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کاپر یس سیکرٹری کا عہدے کا قلمدان سونپا گیا جسے انہوں نے ایمانداری کے ساتھ نبھایا اور منصب پر بیٹھ کر انہوں نے ذاتی مفادات حاصل نہیں کئے اور نہ ہی اپنے کسی عزیز ودیگر دوستوں کو عوامی پیسے سے فائدہ پہنچایا نہ کسی کو سرکاری افسر بنانے کی سفارش کی۔

نیپ کی حکومت کی مدت کم رہی حکومت کے خاتمے کے بعد صدیق بلوچ اسیر بن گئے اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں. ضیاء دور میں ان کو رہائی ملی اب منزل اور مقصد کی جانب صدیق بلوچ کو بڑھنا تھا عوامی خدمت کے عزم کو آگے بڑھانا تھا مگر ناگزیر وجوہات کی وجہ سے انہوں نے سیاست کو خیرباد کہہ دیا اور پھر اپنے اسی شعبے سے وابستگی اختیار کی ۔

صدیق بلوچ سیاست سے قبل بھی صحافت سے منسلک تھے ،انہوں نے اسی شعبے کو پھر اپنایا. صدیق بلوچ ڈان انگر یز ی روزنامہ میں بطور سینئر رپورٹر کے بھی اپنے فرائض سرانجام دے چکے تھے۔

80 کی دہائی میں صدیق بلوچ نے کراچی سے ڈیلی سندھ ایکسپریس کا اجراء شروع کیا مگر ادارہ جاتی معاملات کی وجہ سے انہوں نے اس اخبار سے علیحدگی اختیار کی۔

اسی دوران صدیق بلوچ نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ڈھیرہ ڈال کر ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کی اشاعت شروع کی، صدیق بلوچ کوئی بڑے سرمایہ دار نہیں تھے اور نہ ہی ان کی زندگی میں آج تک کرپشن کی داغ لگی ہو۔

صدیق بلوچ نے ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کے 10 سال کے عرصے بعد روزنامہ آزادی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ بلوچستان کے اہم اور سنجیدہ نوعیت کے مسائل سے عوام کو با آسانی آگاہ کرنا تھا اور لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو بے نقاب کرنا تھا جس کیلئے اردو اخبار کی اشاعت ضروری تھی۔

اس 17 سالہ دورانیہ میں روزنامہ آزادی کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حقائق کو منظر عام پر لانا کرپٹ افسران اور طرز حکمرانی کو آشکار کرنا غیر معمولی اقدامات تھے جس سے وہ بخوبی آگاہ تھے کہ اس عمل سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جنہیں خاطر میں نہ لاتے ہوئے روزنامہ آزادی نے بلاخوف خطر حقیقی صحافت کو ترجیح دی ۔

جس کی پاداش میں روزنامہ آزادی کو اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا حد تو یہ ہے کہ اس میں صدیق بلوچ کے قریبی سیاسی ساتھی بھی شامل تھے جو اپنے دور کے گورنر کے عہدے پر فائز تھے مگر صدیق بلوچ نے ان سخت حالات کا مقابلہ اپنے ورکرز کے ساتھ سینہ سپر ہوکر کیا

اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کم آمدنی کے باوجود روزنامہ آزادی آب و تاب اور اسی طرح شائع ہوتا رہا اور سچ اور حقائق پر مبنی خبریں رپورٹ شائع ہوتی رہی جو تا ہنوز جاری ہے ۔

اس کی ایک اہم وجہ صدیق بلوچ کا صحافتی رویہ ہے جو ہمیشہ اپنے ادارے کے ساتھیوں کے ساتھ بطور صحافی کام کرتے رہے صدیق بلوچ میں کبھی بھی ایک سرمایہ دار کی سوچ نہیں رہی اور نہ ہی وہ کسی پروٹوکول کے شوقین رہے جو اس کی کامیابی کی بڑی اور اہم وجہ ہے،آج بھی صدیق بلوچ کو “لالہ” بزرگ کا لقب حاصل ہے۔

روزنامہ آزادی ایک ایسا ادارہ ہے جس نے نوجوانوں کو بہترین صحافت کرنے میں مدد فراہم کی جس کی مثال آج ہمیں نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک میں بڑے میڈیا انڈسٹری سے جڑے شخصیات سے ملتی ہیں جو اس ادارے کا حصہ رہے ہیں اور صدیق بلوچ کی شاگردی میں کام کرتے رہے ہیں۔

آج ان کی صحافت کے معیار کو دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ روزنامہ آزادی نے بلوچستان سمیت ملک کو اعلی پایہ کے صحافی بھی دیئے آج بھی کوئٹہ سمیت بلوچستان کے صحافی ان کی رہنمائی لیتے ہیں۔

روزنامہ آزادی کی ہی وجہ سے کراچی سے 2006 کے دوران بلوچستان کی ڈیکلرئیشن لینے والے اخبارات کو بہترین صحافی ملے،روزنامہ آزادی آج بھی اپنے مشن اور آزادی صحافت کی راہ پر گامزن ہے۔

روزنامہ آزادی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ بلوچستان کی اخباری صنعت میں واحد نیوز ویب کی بنیاد رکھی تاکہ ملک سمیت بیرون ملک میں بھی لوگ بلوچستان کے مسائل اور حالات سے بروقت باخبر رہے۔

لالہ صدیق بلوچ، انور ساجدی اور جان محمد دشتی نے بلوچستان کی صحافت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

روزنامہ آزادی نے 17 سالہ صحافت کے دوران بدنیتی کا مظاہرہ کبھی نہیں کیا بلکہ ہمیشہ خبریت کو اہمیت دیتے ہوئے حکومت اپوزیشن کے موقف کے ساتھ عوامی مسائل کو حقائق کی بنیاد پر شائع کیا۔

17 سالہ آزادی صحافت کا سفر کے بعد بھی ہم یہی امید اور توقع رکھتے ہیں کہ روزنامہ آزادی اسی طرح صحافتی اقدار اور اصولوں کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے گا. روزنامہ آزادی کی موجودہ اور سابقہ ورکرز 17 سالہ صحافتی جدوجہد پر خراج تحسین کے مستحق ہیں۔