|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2017

سپریم کورٹ کے فیصلہ کو دونوں طرح سے دیکھا جا سکتا ہے: اسے متوقع فیصلہ بھی کہا جا سکتا ہے اور غیر متوقع بھی۔ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا تھا کہ تمام تر شور شرابہ کے بعد بھی پاناما منی لانڈرنگ کیس سماعت کے لیے احتساب عدالت ہی کے حوالے کیا جائے گا۔

اگر سپریم کورٹ شروع ہی میں جب بعض سیاست دانوں نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، آرٹیکل184 (3) کے تحت اختیار کو استعمال کرنے کی بجائے اور بنیادی حقوق کے تحت منصفانہ سماعت ،جیسا کہ آئین کے آرٹیکل10A میں درج ہے، کے حق کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ فیصلہ کر دیتی تو قوم کو پریشانی،وقت اور پیسے کے ضیاع سے بچایا جا سکتا تھا۔

فیصلے کا غیرمتوقع پہلو ،اس معمولی سی دانستہ یا نا دانستہ غلطی پر آرٹیکل62 (f) کے تحت وزیر اعظم کی نااہلی ہے کہ انھوں نے الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی داخل کراتے وقت 10,000 درہم کی قابلِ وصول تنخواہ کو ظاہر نہیں کیا تھا۔

یہ تنخواہ ان کی طرف سے اس کمپنی کی جانب سے قابل وصول تھی جو ان کے صاحبزادے نے دبئی کے ڈیوٹی فری ایریا میں قائم کی تھی۔فاضل عدالت نے اس کی تشریح اثاثے چھپانے کے طور پر کی۔

ٹیکس قوانین کے تحت اگر کوئی شخص اپنے لین دین کا حساب کتاب کیش کی بنیاد پر رکھتا ہے تو پھر قابل وصول کو اثاثہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔تاہم سپریم کورٹ کو ان قوانین کی نئے طریقے سے تشریح کا پورا اختیار ہے اور فاضل جج صاحبان کی فہم و فراست پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

میری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ و زیر اعظم اور ان کے اہل خانہ پر کسی نچلی عدالت میں پاناما لیکس منی لانڈرنگ کیس کا مقدمہ چلایا جاناچاہیئے تھا تاکہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا توانھیں اپیل کے لیے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کا شفاف موقع ملتا۔اسی کو مقدمے کی منصفانہ سماعت کا حق کہا جاتا ہے۔

بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے والد نے دبئی میں اسٹیل مل خریدنے کے لیے جو رقم بھیجی تھی ،اس کے لیے بینکنگ کا مناسب چینل استعمال نہیں کیا تھا،یہی وجہ ہے۔

کہ وہ اس پوری زنجیر کی پہلی کڑی فراہم نہیں کر سکے۔یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ 80 کی دہائی میں یہ رقم فارن ایکسچینج بےئرر سرٹیفکیٹس(FEBCs) کے ذریعے بھیجی گئی ہو۔یہ وہ طریقہ تھا جو ڈاکٹر محبوب الحق نے 80 کی دہائی میں موجود غیر ملکی زر مبادلہ کو کنٹرول کرنے کے سخت قوانین کو آسان بنانے کے لیے متعارف کرایا تھا۔

اگر شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں منی لانڈرنگ کا کیس ثابت ہو جاتا تو انھیں بجا طور پر سزا دی جا سکتی تھی۔اور پھر اس کے نتیجہ میں انھیں الیکشن کمیشن کی جانب سے درست طریقے سے نا اہل قرار دیا جا سکتا تھا۔تمام مہذب ملکوں میں ایسے منتخب نمائندوں کو جنھیں کسی اخلاقی برائی کی پاداش میں سزا سنائی جائے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے روک دیا جاتا ہے۔

اس قسم کے مقدمات میں صرف فلسفہ ء قانون ہی کا معاملہ درپیش نہیں ہوتا۔معاملہ قانونی ہو یا اس کا تعلق قرآن پاک یا روایت کی مذہبی تشریح سے ہو،تشریح انفرادی سوچ پر مبنی چلی آ رہی ہے۔یاد داشت تازہ کرنے کے لیے اسلامی فقہ کے ارتقاء پر سرسری نظر ڈالیے۔ ہمارے پاس پانچ بڑے” فقہ” ہیں جو اسلامی فلسفہ ء قانون کی بنیاد ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان انھیں قبول کرتے ہیں۔

امام ابو حنیفہ80-150) ہجری)،امام مالک بن انس94-179) ہجری)،امام الشافعی150-204) ہجری)،امام احمد بن حنبل164-204) ہجری) اور امام جعفر صادق80-148) ہجری)کی طرف سے ایک قرآن اور لا تعداد روایات(شریعہ)اور احادیث کی تشریح بیان کی گئی۔اگرچہ ان میں سے بعض کے درمیان استاد اور شاگرد کا رشتہ تھا مگر اس کے باوجود انھوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔

(ان مختلف تشریحات سے پیدا ہونے والی تقسیم نے مسلمانوں کو متعدد فرقوں میں بانٹ دیا جو بعض اوقات اپنے نظریاتی جھگڑے پر تشدد طریقے سے طے کرتے ہیں۔مگر سچی بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ تمام مذاہب حتیٰ کہ سماجی اور سیاسی نظریوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا)۔

حکمرانوں نے اس تقسیم کا پورا فائدہ اٹھایا۔مثال کے طور پر تلخ گو صوفی منصورالحلاج کے مقدمے میں” جن دو ججوں نے معاملے پر غور کے لیے کہا تھاوہ خود اس رائے کو مسلمہ معیار سے انحراف سمجھتے تھے مگر انھوں نے ان قانونی نتائج سے اختلاف کیا جو الحلاج کی دستاویز کی ملکیت سے سامنے آئے۔ان میں سے ایک نے جو حنفی تھا ،فیصلہ دیا کہ یہ صوفی بزرگ مسلمہ نظریات سے انحراف سے لا تعلقی ظاہر کر کے سزا سے بچ سکتا ہے۔

مگر دوسرے نے جو مالکی تھا قرار دیا کہ اس کی مخلصانہ معذرت(رشدی کی طرح) بھی قبول نہیں کی جا سکتی اور سزائے موت کا مستحق ہے۔خلیفہ المقتدر کے وزیر نے مالکی تشریح کو استعمال کیا،چنانچہ وہ شخص جو ہماری مذہبی داستانوں میں حق گوئی کی علامت تھا،ختم کر دیا گیا۔

ہمارے آئین کے ساتھ بھی اسی قسم کا مسئلہ ہے جو اس تحریری دستاویز کی جو لگ بھگ45 سال پرانی ہے ،تشریح کرنے والوں کو بہت زیادہ گنجائش دیتاہے۔جبکہ مذہبی روایت کے معاملہ میں اولین تشریح، زبانی وحی اور روایتی تاریخ کے تقریباً ایک سو سال بعد سامنے آئی۔

اس وقت آئین ،اُس وقت کے مقابلے میں جب اسے بنیادی نوعیت کی ترامیم کے بعد دیکھا جائے گا، ایک تازہ اور فعال دستاویز کی حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے باوجود عدالتوں کو انتہائی واضح طور پر درج شقوں کی تشریح کے لیے کہا جا رہا ہے۔مگر اب تک ہوشیار اور چالاک حکومت اس پھندے میں نہیں پھنسی۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ عہدِ جدید میں مذہبی قیادت نے کس طرح معاشرے کے ان تمام طبقات کو ناکام بنا یا جنھوں نے 1979 میں جمہوری ایران کے انقلاب میں حصہ لیا تھا۔ایرانی آئین میں ولایتِ فقیہ کے ادارے کے لیے کہا گیا ہے ۔” فقیہ عدل کی یہ نگہبانی،ہر حالت میں مسلسل امامت کی بنیاد پر ہے” ۔

میرے محدود علم کے مطابق مسلم ریاستوں کی تاریخ میں اس قسم کے ادارے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔” مذہبی نگہبان” اور اس کی کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ متعدد امکانی امیدواروں کو اس بنیاد پر ایرانی پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کے لیے نا اہل قرار دے دے کہ وہ انھیں اتنا پرہیز گار اور مذہبی نہیں سمجھتی کہ عوام انھیں منتخب کریں۔چنانچہ فیصلہ عوام پر نہیں چھوڑا جاتا بلکہ مذہبی قیادت کے ایک چھوٹے سے حلقے کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

مجھے یہ ادارہ وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کے بارے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے یاد آیا۔اس فیصلے میں بعض شقوں کا حوالہ دیا گیا ہے جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔جنرل ضیا الحق نے جو خود کو ایک طرح سے ملک کا مذہبی نگہبان سمجھتے تھے،1973 کے آئین کے آرٹیکل62 اور63 میں بعض متنازع شقیں شامل کر دیں۔

فاضل سپریم کورٹ کے فیصلہ تک آئین کی یہ شقیں غیر فعال رہیں کسی نے بھی ان شقوں کو فعال کر کے پارلیمان کے کسی رکن، صدر اور وزیر اعظم کی ناہلی کی استدعا نہیں کی تھی۔اب جبکہ یہ شقیں فعال کر دی گئی ہیں تو کیا اعلیٰ عدلیہ ایران کی طرح مذہبی نگہبان کا کردار سنبھال لے گی؟

پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کواب اس بات پر افسوس ہونا چاہیئے کہ جب وہ 18 ویں ترمیم پر کام کر رہی تھیں تو انھوں نے آرٹیکل62 اور63 کو ختم نہیں کیا۔میں نے اُس وقت بعض ارکان پارلیمان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا مگر ان کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتیں اس معاملے پر غور کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اس کے باوجود یہ دونوں پارٹیاں، مذہبی جماعتوں کے دباؤ میں آئے بغیر اور انھیں اختلافی نوٹ لکھنے کی اجازت دے کر ان دو شقوں کو ختم کر سکتی تھیں کیونکہ کمیٹی میں ان کی اکثریت تھی۔

اب بھی لبرل جماعتوں کو پارلیمنٹ میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیئے تا کہ آئین سے ان دومتنازع شقوں کو ختم کیا جا سکے۔انھیں یاد رکھنا چاہیئے کہ پی ایم ایل(این) کے وزیر اعظم سے جو عمل شروع ہوا ہے وہ نہیں رکے گا اور ان کی قیادت بھی نا اہل ہو جائے گی۔یہ وقت نواز شریف کے چلے جانے پر شادیانے بجانے کا نہیں بلکہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے کا ہے۔


(کالم نگار تک رسائی کے لیے(ayazbabar@gmail.com