|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2017

پاناما واقعی اللہ کی طرف ایک ایسا گرفت ہے ، جس نے نہ صرف میاں نواز شریف کو وزارت عظمٰی کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ بلکہ شریف خاندان کے خلاف یہ ایک ایسا مقدمہ ثابت ہوا جس نے ان کی سیاست کی کایا پلٹ دی۔

سپریم کورٹ میں میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد حکم جاری ہوا ہے کہ نیب سابق وزیراعظم اور ان کے بیٹوں حسن نواز ، حسین نواز ، بیٹی مریم نواز ، داماد کیپٹن صفدر ، اور میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کے خلاف مقدمہ چلائے اور چھ مہینوں کے اندر اس پاناما سے منسلک اہم مقدمے کو اپنی انجام تک پہنچائے۔

اور اس دوران سپریم کورٹ کے حکم پر ایک جج اس کیس کی نگرانی کرے گا۔ یقیناً نواز شریف نے اپنے تمام طریقے اور حربے استعمال کئے ہونگے۔ زبان زد عام ہے کہ نواز حکومت نے جے آئی ٹی کے ممبران سمیت ججوں کو بھی خریدنے کی بھرپور کوشش کی ، مگر کامیابی نہیں ہوئی۔

تحریک انصاف کے جیالے کہتے ہیں کہ دراصل عائشہ گلا لئی کو اس لئے باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت حکمران جماعت کی جانب سے یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ تم عمران خان کو بدنام کرو تاکہ حکمران جماعت اپنے وزیراعظم کے گھر چلے جانے کے خسارے کو کسی حد تک پورا کر سکے۔

اگر واقعی ان باتوں میں حقیقت ہے تو پھر یہ ہماری سیاست کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے کہ لوگ اپنے سیاسی مخالفین پر کس طرح کے گھٹیا الزامات لگا کر اپنا سیاسی حساب پورا کرتے ہیں۔ ایک عورت کو باقاعدہ تیار کرکے کسی سیاسی جماعت کے سربراہ پر سنگین نوعیت کے الزامات پر مبنی پریس کانفرنس کرنا جس کو ملکی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کور کررہا تھا ۔

یہ عمران خان کی سیاسی و اخلاقی کیریئر پر ایک بڑاداغ ہے ، لیکن ہمارے ملک کے لئے ایسے سنگین الزامات کسی بحران سے کم نہیں۔ نواز شریف کی وزارت عظمٰی سے معزولی اور اس کے پارٹی کی اندرونی صورتحال اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

نوازشریف کی حکومت کو کمزور کرنے اور عدلیہ کی جانب سے معزولی کی وجہ دراصل نوازشریف کے اپنے وزرا ء، مشیروں کی حکمت اور دانائی کا نتیجہ ہے۔ دوسری جانب عدالت میں پاناما مقدمے کی سماعت کے دوران میاں نواز شریف اور ان کے وکلا ء کے دلائل انتہائی کمزور اور بے جان تھے۔

جس کے باعث فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا۔ اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ نوازشریف نااہل قرار پائے ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ نیب میں ریفرنس دائر کرنے اور کیس چلنے سے نواز شریف اپنے خاندان سمیت سخت مشکلات سے دوچار ہونگے ، اور خدشہ بھی یہی ہے کہ مسلم لیگ حصوں میں تقسیم ہوگی۔ کیونکہ ہمارے ملک میں سیاست صرف اقتدار کے حصول کے لئے کی جاتی ہے۔

اس وقت سب کی نظریں نوازشریف کے خلاف نیب میں مقدمے اور ریفرنس پر لگی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف 2018 کے انتخابات میں بھی زیادہ عرصہ نہیں بچا ہے۔ نواز شریف نے سیاسی شہید ہونے کی بھر پور کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔

اب آنے والے چھ مہینے انتہائی اہم ہیں کیونکہ ایک جانب نواز شریف پر مقدمات چل رہے ہیں دوسری جانب الیکشن سر پر آرہے ہیں۔ عدالت نے شریف کو نااہل قرار دے کر ایک طرح کی رائے ہموار کی۔ اب عام آدمی ووٹ دینے سے قبل سو دفعہ یہ سوچے گاکہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے میاں نواز شریف کو وزارت عظمٰی کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔

ماضی کے مقابلے میں اب لوگ زیادہ با شعور ہیں۔ میڈیا نے بھی کسی حد تک لوگوں میں سیاسی شعور اجاگر کیا ہے۔ میاں نواز شریف اور اس کی جماعت خود کو جتنا بھی معصوم قرار دے ، لوگوں کو سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے وہ بے گناہ اور معصوم شہریوں کے خون سے لت پت چہرے آج بھی یاد ہیں۔

پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس ملک میں اقتدار سے محروم اور اداروں خصوصاً فوج اور عدالت سے ٹھکر لینے والی جماعتیں ہمیشہ ہار جاتی ہیں اور ان کا شیرازہ بکھرنا یقینی ہوتا ہے۔ جس طرح ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی ایک ملک گیر جماعت ہوتی تھی ، مگر آج ذوالفقارعلی بھٹو کی جماعت سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

اس وقت پاکستان میں ایسی کوئی جماعت نہیں ہے کہ وہ ملک کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان سمیت آزاد کشمیر تک یکساں طور پر مضبوط و مستحکم ہو۔ میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے دوری ان کی پارٹی کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔