|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2017

وطینت کا محدود تخیل نوع انسانی سے عام اور ہمہ گیر محبت کا کفیل نہیں ہوسکتا ‘ میں بین الاقوامیت کا حامی ہوں اور کائنات کے لئے اسے ضروری سمجھتا ہوں ۔ میر یوسف عزیز مگسی ‘ بلوچستان جدید یکم مارچ 1934۔

انسانی معاشرے میں کسی بھی بڑے انسان کا نمو دار ہونا اس دور کے حالات و واقعات کے تدریجی تبدیلیوں سے ہوتاہے یہ عظیم انسان اپنے پیشرؤں کے علم و دانش سے استفادہ کرکے اپنے معاشرتی زندگی کو علمی اندا زمیں سمجھنے، پر کھنے کے لئے تگ و دو کرتے ہیں بدلتے ہوئے حالات اور رونما ہونے والے واقعات کو پیش نظر رکھ کر اپنے معاشرے کے مختلف طبقات کا جائزہ لے کر ان کے غموں اور خوشیوں کو نہ صرف اپنے فکر میں پروتے ہیں بلکہ علمی طورپر ان کی زندگی کو بدلنے، معاشرتی زندگی میں بنیادی و کیفیتی تبدیلی لانے کیلئے متحرک ہوتے ہیں ۔ 

انسانی محنت کی تقسیم ہی سے عظیم فلسفیوں اور مفکروں نے ایک خوشحال و غیر طبقاتی معاشرے کی تشکیل کے لئے جدوجہد کو ابھارا ۔ استحصال سے پاک سماجی ‘ اقتصادی نظام کی تشکیل کی اس عالمگیر اجتماعی جدوجہد کے قافلے میں دیگر خطوں کے روش بروش بلوچستان بھی شریک سفر رہا ہے ۔ 

بیسیویں صدی انسانی معاشرتی زندگی میں کیفیتی و بنیادی تبدیلیوں کی صدی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔سوویت یونین میں برپاہونے والی عالمگیر تبدیلی نے کرہ ارض کے وسیع حصے کو متاثر کیا سامراج دشمنی کی لہرنے ایک تحریک کی شکل اختیار کی ۔

کرہ ارض کا دو تہائی حصہ انقلاب کا پیش خیمہ بنا اس انقلاب زمانہ نے بلوچستان میں اٹھارویں صدی سے جاری روایتی قبائلی مزاحمت کی جگہ قومی جمہوری خدو خال کے ساتھ سیاسی ‘ معاشی و تنظیمی جدوجہد کو ابھارا جس کا سہرا میر عبدالعزیز کرد و میر یوسف عزیز مگسی کے سر جاتا ہے ۔

عین عالم نوجوانی میں میر یوسف عزیز کی اتفاقی رحلت کے بعد بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اواخر میں میر غوث بخش بزنجو نمو دار ہوئے اور جلد ہی یوسفی قافلے کے میر کاروان بنے جوبیسیوں صدی کے اواخر تک انتہائی دانش مندی اور مدلل انداز سے یوسف عزیز کے ہوتے ہوئے نظریات کو پروان چڑھایا۔ میر غوث بخش بزنجو نے میر یوسف عزیز کے افکار سے دلی وحدت رکھ کر زمانے کے رفتار کے ساتھ ساتھ وقت و حالات کے مطابق انہیں آگے بڑھایا ۔

میر یوسف مگسی اورمیر غوث بخش بزنجو کی خاندانی حیثیت ‘ افکار اور جدوجہد میں مماثلت پائی جاتی ہے دونوں بلوچ اشرافیہ کے گھرانوں میں پیدا ہوئے ۔ میر یوسف عزیز کے بقول ’’ انہیں باقاعدہ تعلیم سے محروم رکھا گیا جس طرح قدامت پسند رئیسوں کا شیوہ ہے کہ ان کی اولاد کو ملازمت تھوڑی کرنی ہے ۔ اسلاف کی روایات اور طرز معاشرت کے لئے انگریزی تعلیم مضر ہے، خطر ناک ہے ۔

احباب کے مجبور کرنے پر انہیں لکھنے ‘ پڑھنے کی حد تک گھرمیں تعلیم دی گئی لیکن زمانے کی رفتار اور حالات و وقعات نے انہیں وہ کچھ سکھایا جس نے انہیں شاہراہ جدوجہد پر لا کھڑا کرکے ایک عظیم مفکر کے طورپر پیش کیا ۔

میر یوسف عزیز مگسی بلا کے ذہین اور خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے بچپن ہی سے سماجی صورت حال ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ 

وجوہات و نتائج کا علمی انداز سے جائزہ لیتے تھے اسی تجسس جذب و اثر نے یوسف کو شاہراہ جدوجہد کی طرف مائل کردیا اس دور میں سوویت انقلاب نے دنیا بھر کے مظلوم طبقات اور محکوم اقوام کی تحریکوں میں نئی روح پھونک دی تھی انگریزوں کے خلاف ہندوستان بھر سے سیاسی تحریکیں اپنی اٹھان پر تھیں اسی دور میں یوسف عزیز قبائلی امور کے ساتھ ساتھ سیاسی تحریکوں میں بھی شرکت کرنے لگے ۔ اور ان تحریکات میں بہ نفس نفیس شریک ہو کر ان سے استفادہ کرتا رہا ۔

اور بالآخر بلوچستان میں سیاسی ہلچل پیدا کرنے کیلئے اپنا پہلا مضمون لکھا جو مساوات ( لاہور ) کے 17نومبر 1929ء کے شمارے میں شائع ہوا میر غوث بخش بزنجو با قاعدہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوئے ۔

نال سے علی گڑھ یونیورسٹی تک رسائی حاصل کی علی گڑھ کے ہی دنوں میں میر غوث بخش بزنجو کی قربت ترقی پسند نوجوانوں سے ہوئی جن کی صحبت میں رہ کر انہوں نے سماجی علوم اور سیاست کے ابجد سیکھے۔ 

ملکی و بین الاقوامی حالات و وقعات کا گہرا مطالعہ کیا علی گڑھ سے واپس آئے تو سیاست کے بنا رہ نہ سکے ۔ کراچی میں انجمن’’اصلاح بلوچاں‘‘ نامی تنظیم میں شامل ہوئے ۔ 1939ء میں مستونگ میں منعقد ہونے والے ’’ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے کنونشن میں انجمن اصلاح بلوچاں کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی یہاں کے حالات و واقعات دیکھ کر نیشنل پارٹی کے ہوگئے ۔ 

میر یوسف عزیزمگسی و میرغوث بخش بزنجو وطن پرستی و وطن دوستی ‘ قوم پرستی و قوم دوستی میں واضح فرق سمجھتے تھے ۔ وہ پرستش کے ان رحجانات کو قومی اشرافیہ کے مفادات کا ترجمان گردانتے تھے جو تنگ نظر قوم پرستی و نسل پرستی کے ان رحجانات کو قومی اشرافیہ و بالائی طبقات کے محدود یت کے نظر ئیے سے تعبیر کرتے ہوئے انہیں قومی جدوجہد میں ضرر رساں تصور کرتے تھے ۔ 

دو نوں قوم دوستی و وطن دوستی کے نظریات کے قائل تھے جو قومی تحریکات میں وسیع النظر فکر سے ہم آہنگ قوموں کی یکجہتی و بین القوامیت کے نظرئیے کے فروغ کا باعث ہے اور جو اشرافیہ کی محدود قوم پرستی کے بر خلاف دیگر قومی تحریکات اور نچلے و کچلے ہوئے طبقات کی جدوجہد سے منسلک ہے ۔ میر یوسف عزیزمگسی سیاسی وقومی جدوجہد کے ساتھ ساتھ زبان ‘ نسل ‘ علاقہ و ذات پات سے بالا تر مزدور فکر سے بھی وابستہ رہے وہ مزدور طبقے کو ہی ’’ انقلابی طبقہ ‘‘ تصور کرتے تھے یوسف عزیز نے اس انقلابی طبقہ کو بلوچستان میں وجود میں لانے کیلئے سر توڑ کوششیں کیں ۔

انہوں نے معاشی و سیاسی جدوجہد کے پلیٹ فارم پر انہیں اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا اور اس کے وجود کو جدوجہد کے لئے ضروری گردانا ۔ میر غوث بخش میر یوسف عزیز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دور میں سیاسی وجمہوری جدوجہد کے ساتھ ساتھ مزدور تحریکات سے بھی وابستہ رہے ۔ ان کے استحصال ‘ ظلم و جبر اور معاشی و سیاسی حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے ۔ 

وہ قومی ‘ سیاسی و معاشی جدوجہد کو محنت کش طبقات کی جدوجہ سے منسلک سمجھتے تھے وہ کسی بھی سیاسی جدوجہد کو محنت کش طبقات کی شراکت داری کے بغیر بے معنی ‘ بے سود اور بے بھرم تصور کرتے تھے ۔ 

میر یوسف عزیز مگسی کسی بھی سماج میں بنیادی و کیفیتی تبدیلی لانے کیلئے اس سماج کے مختلف ستونوں پر استادہ بالائی ڈھانچہ کے خدوخال کا جائزہ ضروری گردانتے تھے انہوں نے بلوچستان سماج کے اندر زندگی بسر کرنے والے مختلف طبقات کا علمی انداز سے جائزہ لیا ان کے غم و خوشیوں ‘ مشکلات و ضرورتوں کا ادراک کرکے ان کے معاشی بہبودکو اپنی قومی جدوجہد کے ساتھ جدلیاتی طورپر مربوط رکھا ان کی زندگی بدلنے کیلئے ان کی مشکلات کو اپنی قومی انجمن کے منشور میں اولیت دی ان کی صف بندی کی کوششیں کیں مختلف ذرائع سے ان کے معاشی استحصال کے خلاف آواز بلند کی ۔ وہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ معاشی تبدیلی ہی سماجی انقلاب کی بنیاد ہے ۔ وہ بلوچ سوسائٹی کو چلانے والے قوانین کا ادراک کرکے انہیں اپنی جدوجہد کا محور بنادیا ۔ 

میر یوسف عزیز نے اپنے عوام کی معاشی زندگی سدھارنے کے لئے عظیم معاشی منصوبے بنائے اور انہیں اپنے ہی ذاتی خرچ سے عملی جامہ پہنچایا ۔ عوام کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے کیرتھر نہر کی تعمیر کی اپنے ہی جائیداد پر زرعی اصلاحات نافذ کرکے غریب و بے زمین کسانوں کو زمینیں دیں عوام کی معاشی حالات بہتر بنانے کے لئے روزگار کے حصول اور ملوں کی تعمیر کو اپنی تنظیمی جدوجہد میں سرفہرست رکھا ۔ 

میر یوسف عزیز کی طرح میر غوث بخش بزنجو نے بھی سماجی تبدیلی کے لئے معاشی سیاسی و نظریاتی جدوجہد کو اہمیت دی یوسف کی طرح میر غوث بخش بزنجو بھی معاشی جدوجہد کے کلیدی کردار سے باخبر تھے انہوں نے بھی یوسف کی پیروی کرکے اپنی جدوجہد کو بلا رنگ ‘ نسب و نسل ‘ علاقہ دنیا بھر کے مزدوروں کی جدوجہد سے مربوط رکھا پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کے چوٹی کے کئی رہنما میر صاحب کے پارٹی سے وابستہ رہے ۔

میر یوسف عزیز مگسی سیاسی جدوجہد کو ہر قسم کے ظلم وجبر و استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لئے شعوری طورپر عوام کی وسیع اکثریت کے ساتھ اقتدار پر غالب آنے کی جدوجہد تصور کرتے تھے وہ سیاسی جدوجہد کے ان داؤ پیچ سے بھی واقف تھے ۔ یوسف کے ساتھ بلوچ سیاسی دانشوروں کی ایک بڑی کیپ تھی جن کی وجہ سے وہ قلیل مدت میں انتہائی برق رفتاری کے ساتھ کامیابیوں کی طرف بڑھتے ہوئے اپنے عوام کی قومی و طبقاتی مفادات کی ترجمانی کرتے رہے ۔ 

میر یوسف عزیز کی طرح میر غوث بخش بزنجو بھی قومی و طبقاتی نا برابری کے ظلم و استحصال کے خلاف بدلتے وقت و مخصوص حالات میں قابل اطلاق سیاسی جدوجہد کے طریقے آزماتے رہے ۔ میر غوث بخش بزنجو اپنے دور میں دیگر جمہوری قوتوں کے اشتراک سے جمہوری جدوجہد میں ایک لچکدار سیاسی رہنما ء کی حیثیت سے ابھرے اور کاروان جمہور کے روح رواں ٹھہرے ۔ 

میر یوسف عزیز مگسی اپنی مختصر سی زندگی میں کسی نظریاتی سٹیڈی سرکل سے فیض یاب نہیں ہوئے تھے لیکن خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ارتقاء کے فلاسفی سے باخبر تھے وہ جوہر کی اندرونی کشمکش اور بیرونی تضادات کے باہمی اشتراک سے ارتقاء کے نشوونما کو سمجھتے تھے انہوں نے معاشی و سیاسی مشکلات و مظاہرہ کا علمی انداز سے ادراک کرکے انہیں ٹھوس بنیادوں پر ابھارا ۔ 

میر یوسف مگسی اور ان کے رفقاء کا ر قومی جمہوری نظریہ رکھتے تھے جنہوں نے پسماندہ بلوچ سماج میں قومی ریاست کے قیام کے لئے سیاسی آزادی کے ساتھ ساتھ اقتصادی آزادی کو مربوط رکھا وہ استعماریت سے اقتصادی آزادی کو سیاسی آزادی کی بنیاد خیال کرتے تھے ۔

وہ بلوچ سماج میں جاگیر دارانہ رشتوں کے خلاف سماجی تبدیلی کی محرک قوتوں مزدوروں ‘ کسانوں اور محنت کش عوام کے دیگر حصوں کو باہم مربوط کرکے اور ان کی زندگی کے مسائل و مشکلات کو اپنے اغراض و مقاصد میں سرفہرست رکھا او ران مقاصد کے حصول کے لئے سخت جدوجہد کو اپنا نصب العین بنایا ۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بلوچ معاشرتی ساخت کے لحاظ سے بلوچستان میں رونما ہونے والی سیاسی ہلچل براہ راست محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں نہیں تھی لیکن محنت کش طبقے سے قربت رکھنے والے درمیانی طبقہ کے دانشوروں نے اس سیاسی جدوجہد کی ڈوری اپنے ہاتھوں میں لی تھی حالانکہ بلو چ سماج میں طبقاتی تضادات کی گہری جڑیں وجو درکھتی تھیں اور محنت کش طبقہ نشوونما کے ابتدائی مدارج سے گزررہا تھا جس کے مفادات کی فرائض منصبی درمیانہ طبقہ سرانجام دے رہا تھا ۔ 

اس جدوجہد کے خدو خال واضح تھے اور بلو چ عوام کی اس قومی جمہوری جدوجہد میں طبقاتی مافیہ نمایاں تھا جو مطلق العنانیت ‘ جاگیر داریت ‘ سرداریت ‘ سامراجی سیاسی و اقتصادی غلبے اور استحصال کے خلاف ہونے والی قومی جدوجہد پر چھایا ہوا تھا ۔ 

بلوچ عوام کی ہر قومی جمہوری جدوجہد سامراجی مفادات کے آلہ کار مطلق العنان سرداریت اور برٹش استعماری نوآبادیاتی سیاسی و معاشی غلامی کے خلاف تھی ۔

میر یوسف عزیز نے فنی اقتصادی ‘ اور ثقافتی ترقی کا بند راستہ کھولنے کے لئے اپنی قومی جدوجہد کو بر صغیر کی سامراج دشمن جدوجہد کے ساتھ باہم مربوط کرکے پیش قدمی کی جس کے باعث بلوچ قومی تحریک کے خدو خال سامراج دشمنی ‘ جاگیردار دشمنی اور سردار دشمنی کے اہداف کے ساتھ واضح اور نمایاں نظر آنے لگے او رانتہائی برق رفتاری کے ساتھ پھلنے پھولنے لگے ۔ 

میر غوث بخش بزنجو نے اپنی طویل جدوجہد کے دوران میر یوسف عزیز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان اہداف کو مشعل راہ بنایا میر غوث بخش بزنجو کے نظریات کے مطابق یہی اہداف قومی جمہوری انقلاب کے ہیں جو سرمایہ دارانہ ترقی کے مدارج کو عبورکرنے کا فارمولا اور سماجی تبدیلی کی سائنس ہے جس کی رو سے ایک قوم یا ملک ترقی کے غیر سرمایہ دارانہ راہ کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرتی ہے میر غوث بخش بزنجو قومی جمہوری انقلاب کی کامیابی کو محنت کش طبقات کی تنظیم ‘ اتحاد اور ان کی نظریات پر کار بند قومی جمہوری پارٹی کی فعالیت سے منسلک سمجھتے تھے ۔ 

ان کے نظریات کے مطابق سماجی تبدیلی کے لئے غیر سرمایہ دارانہ راستے کا تعین اقتدار پر قابض محنت کش طبقات کے نظرئیے سے لیس سیاسی قوت ہی کر سکتی ہے ۔ اگر اقتدار کی ڈوری قومی سرمایہ دار طبقے کے ہاتھوں میں چلی گئی تو ایسی صورت حال میں غیر سرمایہ دارانہ تبدیلی نا ممکن سی بن جاتی ہے ۔ 

میر غوث بخش بزنجو قومی جمہوری ریاست کے قیام کو قومی جمہوری جدوجہد کی ابتداء تصور کرتے تھے جس کی بدولت قومی خود مختاری ‘ سماجی آزادی اور معاشرتی ترقی بنیادی اور کیفیتی تبدیلی کے ان راستوں کے در کھولتے ہیں جہاں حقیقی سیاسی آزادی ‘ سماجی مساوات ‘ جدید نو آباد یاتی نظام اور سامراجی لوٹ و کھسوٹ سے نجات ‘ رجعتی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی شکست او رعوام کی پرمسرت خوشحالی صبح نو کی نوید سناتے ہوئے انقلاب کا سورج طلوع ہوتا ہے ۔ 

میر غوث بخش بزنجو کے مطابق ہر سماجی تبدیلی اس وقت ممکن ہے جب مزدور ‘ کسان ‘ کھیت مزدور ‘ درمیانے طبقات ‘ چھوٹی قومیتوں کے جمہوری عناصر جمہوریت پسند ‘ محب وطن اور سامراج دشمن قوتوں کا ایک وسیع محاذ کی تشکیل عمل میں لائی جائے اور اسی وطن دوست ‘ ترقی پسند قوتوں کے وسیع تر متحدہ محاذ ہی کے جدوجہد کی بدولت سامراجی اثرو نفوذ اور سرمایہ دار ملکوں کے بین الاقوامی اجارہ داریوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اقتصادی انحصارکا خاتمہ ممکن بن سکتا ہے۔

قومی جمہوریت کی اقتصادی پالیسیوں کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ ‘ جاگیر دارانہ رشتوں سے جان خلاصی ‘ عوام کو مساوی حقوق اور قومیتوں کو خود مختاری ‘ خارجہ پالیسی میں ترقی پسند ملکوں سے سیاسی ‘ معاشی اور ثقافتی تعلقات میں مضبوطی ہی سے ترقی کے غیر سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت مل سکتی ہے جس سے قومی جمہوری ریاست کے قیام کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔