|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2017

1990ء کی دہائی کے دوران ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے درمیان با قاعدہ جنگ جاری تھی اس دور میں سیاست نہیں بلکہ سازشیں عروج پر تھیں جس کی وجہ سے مقتدرہ کے اہلکار اورا ن کے ایجنٹ خصوصاً غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری جیسے لوگ فائدے میں رہے اور دونوں سیاسی پارٹیوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ، وہ اپنی قانونی اور آئینی مدت پوری نہ کر سکیں ۔

چنانچہ اس کے پیش نظر دونوں بڑی پارٹیوں میں معاہدہ ہو ااور یہ طے پایا کہ جس کی بھی حکومت آئی تو ان تمام سازشوں کو مشترکہ طورپر ناکام بنایاجائے گا جس کا مقصد آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے منتخب حکومت کو سازشوں کے ذریعے نہ صرف معطل بلکہ بر طرف کیاجاتا ہے ۔

یہ معاہدہ مرحوم بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہوا جس پر دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی دستخط کیے ۔ اس طرح سے 2008ء کے انتخابات کے بعد پی پی پی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ،اس کے بعد مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی ۔ اس دوران پی پی پی نے کسی بھی سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا جس کا مقصد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا خصوصاً عمران خان کے طویل دھرنے کے دوران پی پی پی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئی اور عمران خان کی سازش’’ کہ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیاجائے‘‘ کو ناکام بنایا ۔ 

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اس کا واضح ثبوت تھا اس لیے غیر جمہوری قوتیں نواز شریف کی قانونی حکومت کا تختہ نہ الٹ سکیں اور ملک میں مستحکم حکومت قائم رہی۔ اس سے قبل پی پی پی کی حکومت نے58-2Bکی شق آئین سے نکال دی جس کی وجہ سے صدر پاکستان آئے دن حکومتیں برطرف کرتا رہتا تھا۔ 

اسی وجہ سے موجودہ حکومت کو کسی بھی بہانے برطرف نہیں کیا جا سکا بلکہ نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کے بعد بھی ملک میں مسلم لیگ کی حکومت قائم رہی اور یہ نئی حکومت اپنی بقیہ مدت پوری کرے گی ۔ لیکن گزشتہ روز عمران خان نے ایک نیا مطالبہ پیش کیا کہ آئینی مدت مکمل کرنے سے قبل ہی انتخابات کرائے جائیں۔ 

یہ مطالبہ ان کی بے قراری اور بے صبری کا مظہر ہے ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خطے کی صورت حال انتہائی خطر ناک ہے ، امریکا اور بھارت نے افغانستان سے مل کر پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا ہے اور روزافزاں اس میں اضافہ کیاجارہا ہے ۔ سیکورٹی کی صورت حال انتہائی خطر ناک حدود کو چھو رہی ہے اور ہر آنے والا دن اس کشیدگی اور تلخی میں اضافہ کرتا نظر آتاہے، اس میں کمی آنے کے امکانات نہیں اور نہ ہی بین الاقوامی طورپر اس کشیدگی میں کمی کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ 

لہذا ہر آنے والے دن میں اس بات کے امکانات کم سے کم تر ہوتے جائیں گے کہ ملک میں انتخابات کرائے جائیں ۔شاید اسی وجہ سے عمران خان نے فوری طورپر قبل از وقت انتخابات کرانے کا نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ اس پر زور دیا کہ اس کے اس مطالبے کو منظور کیاجائے ورنہ ان کے لئے اور ان کی پارٹی کے لئے بہت دیر ہوجائے گی اورشاید اسکے وزیراعظم بننے کے تمام امکانات ختم ہوجائیں گے۔

لیکن عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ موجودہ بحران کا سامنا کرنے کے لئے فوری طورپر ایک قومی حکومت بنائی جائے اور انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کیا جائے ۔ اشرف غنی نے امریکا کے اس تجویز کی کھلی حمایت کی کہ افغانستان میں بھارت کو ایک اہم کردار دیاجائے ۔ پاکستان اس کی سخت مخالفت کررہا ہے ۔ اس کا مطلب یہ لیاجائے کہ امریکا ‘ بھارت اور افغانستان کا پاکستان کے خلاف ایک محاذ بن گیا ہے ۔

ہمارے دو پڑوسیوں بھارت اور افغانستان کی امریکی پشت پنا ہی خطرناک عزائم کی نشاندہی کررہا ہے۔ پاکستان اور اس کے عوام کے بہترین مفاد میں ہے کہ معاملات کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کیاجائے ۔اگلے ماہ آنے والی امریکی وفد سے مثبت اندازمیں مذاکرات کیے جائیں تاکہ تمام مسائل کا حل نکل سکے۔