|

وقتِ اشاعت :   September 30 – 2017

ابتداء سے ہی چھوٹے صوبوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان کے حوالے سے وفاق کی جانب سے یہ تاثر واضح طورپر دیا گیا کہ مرکزی حکومت اور فیصلہ کرنے والوں کو آئین میں 18ویں ترمیم قابل قبول نہیں کیونکہ یہ طاقتور ترین طبقہ اس کا مخالف ہے ۔ 

ستم ظریفی یہ ہے کہ جس دن 18ویں ترمیم کی منظوری کا تاریخی فیصلہ ہوا، اس دن پاکستان بھر کے ٹی وی چینلوں سے پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ کی یہ انتہائی اہم اور بہت بڑی خبر غائب کردی گئی ۔ کسی ایک چینل نے ایک لفظ بھی نہیں کہا کہ پارلیمان سے 18ویں ترمیم پاس ہوگئی ہے۔

اس کے برعکس بھارت کے ٹینس کھلاڑی ثانیہ مرزا کی شادی پر ڈھول باجے کو دکھایا گیا ۔ اس میں عام لوگ نہیں تھے ، ٹی وی کیمرے میں خاندان کے افراد کے علاوہ زیادہ تر میراثی تھے ۔ ظلم خدا کا کہ ہر چینل پر ہر خبر نامے کے بعد ثانیہ مرزا کی شادی پر ڈھول کو گھنٹوں دکھایا گیا ۔ مگر 18ویں ترمیم کی خبر کو بلیک آؤٹ کردیا گیا۔ 

یہ واضح اشارہ تھا کہ وفاقی حکومت صوبوں اور صوبائی خودمختاری سے کتنی نفرت کرتی ہے اور کس حد تک مضبوط ترین مرکز کا حامی ہے کہ وہ صوبوں کو جو وفاقی اکائیاں ہیں ختم کرنا چاہتا ہے ۔ اٹھارویں ترمیم کا کوئی فائدہ بلوچستان کو ملتا نظرنہیں آتا کیونکہ بلوچستان سے متعلق اہم ترین فیصلے اب بھی وفاقی حکومت کرتی ہے۔

’’اٹھارویں ترمیم گئی بھاڑ میں‘‘کو وفاق کا حالیہ فیصلہ خود ثابت کرنے کے لیے کافی ہے جس میں سندھک کو مزید پانچ سالوں کے لئے چین کو دے دیا گیا یعنی بلوچستان کو اس حصہ ڈھائی فیصد ملتا رہے گا اس کو اور کیا چائیے ۔ 

ہم نے ان کالموں میں کئی بار اس بات کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان میں معدنیات کی ترقی کیلئے چین کوان سے دور رکھاجائے کیونکہ چین کی کمپنی نے چاغی کے عوام کی کوئی خدمت نہیں کی، صرف لوٹ مار کی اور بلوچستان سے دولت لوٹ کر لے گئی ، اس وجہ سے چینی بلوچستان میں نیک نام نہیں ہیں۔ پچاس فیصد سے زیادہ سندھک کے کارکنوں کا تعلق چین سے ہے ۔ دوسرے الفاظ میں چینیوں نے مقامی افراد کے روزگار کاحق بھی چھین لیا اور لوگوں کو مایوس کیا۔ 

ہم نے انہی کالموں میں یہ لکھا تھا کہ بلوچستان کی حکومت مکمل تیاری کے ساتھ سندھک کا قبضہ حاصل کرے۔ معاہدہ اکتوبر میں ختم ہونے والا ہے لہذا حکومت بلوچستان اس منصوبے کو خود چلائے، اس کے پاس ماہرین موجود ہیں جنہوں نے اس پروجیکٹ کی ابتداء میں جو پیداوار حاصل کی، وہ تانبہ اور سونا پچاس کروڑ میں فروخت ہوئی اوربغیر کسی امداد کے پاکستانیوں نے دو ماہ تک اس کو کامیابی کے ساتھ چلایا ۔

چین کو دوبارہ کنٹریکٹ دینا دراصل بلوچستان کی حکومت اور اس کی انتظامیہ پر عدم اطمینان کا اظہار اور واضح طور پراستحصال ہے۔ وفاقی حکومت نے یک طرفہ کارروائی کرکے سندھک کومزید پانچ سال کے لیے چین کو بخش دیا ۔ چین ان پانچ سالوں میں ہر چیز کا صفایا کردے گا اور بلوچستان کے عوام کے لئے کچھ بھی نہیں بچے گا ۔اس لئے پورے بلوچستان کے ہرمکتبہ فکر نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے او راس کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ 

اتنی بڑی معدنیاتی کمپنی نے پندرہ سالوں تک سندھک سے اربوں ڈالر کمائے مگر پورے چاغی یا خصوصاً نوکنڈی کے عوام کو پانی اور بجلی بھی فراہم نہ کر سکی، نہ اس کی سڑک مرمت کی گئی ۔ جتنے چینی بلوچستان آئے تھے ان میں مزید اضافہ کیا گیا اور مقامی لوگوں کو روزگار کے حق سے بھی محروم کرد یا گیا ۔

ابتداء سے ہی صوبائی حکومت نے اس حوالے سے کسی دلچسپی کااظہار نہیں کیا کہ سندھک کو صوبائی حکومت کی تحویل میں لیاجائے اور پھر اسی کو بنیاد بنا کر ریکوڈک کی بھی منصوبہ بندی کی جاتی اور بلوچستان کی معدنی دولت کو عوام کے مفاد اور ان کی ترقی کے لئے استعمال کیا جاتا۔

اس تازہ فیصلے سے تو لگتا ہے کہ ریکوڈک کے مستقبل کا فیصلہ بھی وفاقی حکومت کرے گی اور جس کو چاہے گی بخش دے گی، اگر صوبائی حکومت یونہی سوتی رہی۔ صوبائی حکومت کے پاس سینکڑوں افسران پر مشتمل ایک بڑی ٹیم موجود تھی لیکن عدالت کے ایک حکم سے ان کو الگ کردیاگیا یا ان کو بے روزگار کردیا گیا۔ 

ان سب تربیت یافتہ افسران پر مشتمل ٹیم کو معدنی دولت کی ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ وہ بہتر انداز میں معاشی منصوبہ بندی اور معاشی ترقی کے لئے کام کر سکتے ہیں ۔

چین سے معاہدہ کی توسیع کے بعد ان سینکڑوں قابل افسران کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا اور اہل بلوچستان کو ان کی اوقات پر رکھا گیا جو عملی طور پر وفاق بلوچستان سے متعلق رکھتاہے۔