|

وقتِ اشاعت :   October 1 – 2017

حالیہ دنوں میں اکثر سیاسی پارٹیوں اور رہنماؤں نے نیب کو خاص طورپر نشانہ بنایا خصوصاً طاقتور افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر اپنی برہمی کا اظہار کیا ۔ حدیبیہ پیپرز کیس میں نیب نے اپنے طورپر سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی۔ اس پر شیخ رشید نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ حدیبیہ پیپرز کیس جو شریف خاندان کی ملکیت ہے، اس کو دوبارہ کھولا جائے ۔

سپریم کورٹ کے بنچ نے نیب کی سرزنش کی اور حکم دیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل داخل کی جائے۔ اس طرح سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد ہی نیب نے اپیل دائر کی اور یہ مقدمہ دوبارہ کھل گیا جہاں پر بڑے بڑے انکشافات کی توقع کی جارہی ہے ۔

جنرل پرویزمشرف نے نیب کا ادارہ بنایا تاکہ مخالفین کو بلیک میل کیا جا سکے اور ایسا ہی کیا گیا۔ نیب نے مخالفین پر مقدمات بنا کر ان پر زبردست دباؤ ڈالا کہ وہ سرکاری مسلم لیگ میں شامل ہوکر فرد واحد کی حکمرانی کو مضبوط بنانے اور اس کو دوام بخشنے کے لئے آمر کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ 

نیب میں جنرل پرویزمشرف نے من پسند افراد کو بھرتی کیا تاکہ وہ ا پنے سیاسی اہداف حاصل کر سکیں۔ کوئٹہ میں جب پرویزمشرف تشریف لائے تو سینکڑوں کی تعداد میں مخالفین رہنماء اور کارکن ان کی سیاسی تقریر سننے کے لئے لائے گئے۔ 

تقریباً ان تمام لوگوں نے سرکاری مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی جن پر نیب نے الزامات لگائے اور بعض کے خلاف مقدمات درج کیے اور کئی ایک معروف رہنماؤں کو گرفتار بھی کیا ، حراست کے دوران ان کی تذلیل بھی کی گئی ۔پرویزمشرف کے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے بلوچستان کی پوری انتظامیہ دو سال تک مفلوج رہی ۔

نیب کا ایک ادنیٰ سا اہلکار بھی حکومت بلوچستان کے کسی محکمے کے سیکرٹری کو یہ حکم دیتا تھا کہ فلاں دستاویزات لے کر حاضر ہوجاؤ ،ایسا معلو م ہوتا تھا کہ بلوچستان میں نو آبادیاتی نظام دوبارہ رائج ہوگیا ہے۔ 

بلوچستان کا بڑے سے بڑا افسر نیب کے ایک ادنیٰ سے افسر کے سامنے بے بس تھا۔ ان پندرہ سالوں میں نیب کی کاردکردگی اورغلط اقدامات کا کیا یہ اثر پڑاکہ انتظامیہ میں ڈسپلن نام کی چیز غائب ہوگئی ، ٹھگوں کی چاندی ہوگئی ، ٹھگوں کے گروہ کو کہا گیا کہ فلاں کے خلاف درخواست دائر کرو ۔ 

ان تما م باتوں کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ نیب نے چند ایک ارب روپے وصول کیے ایک آدھ کو معمولی سزائیں ہوئیں لیکن بدلے میں کرپشن میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ ان کی پالیسی کی وجہ سے کرپٹ افسران زیادہ دلیر ہوگئے۔ اسی وجہ سے ایک افسر کے گھر سے تقریباً ستر کروڑ روپے اور دوسرے سیکورٹی افسر کے گھر سے 13ارب روپے کیش بر آمد ہوئی ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی افسر کا سماج میں کوئی کردار اور اثر و رسوخ نہ ہو وہ کوئی خدمت سرا نجام نہیں دے سکتا ۔ نیب میں اکثر لوگ دوسرے صوبوں سے آئے ان کو یہاں کے حالات کا کچھ بھی پتہ نہیں، نہ ہی لوگ نئے آنے والوں پر اعتبار کرتے ہیں تاوقتیکہ صدیاں نہ گزر جائیں اس لیے نیب کا نظام بلوچستان میں بالکل ناکام ہوگیا۔ سالانہ 300ارب کے بجٹ میں کم سے کم نصف غبن ہوجاتا ہے ۔
اس کے مقابلے میں بارہ اور پندرہ ارب کی ریکوری کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ سالانہ 150ارب کا نقصان ہورہا ہے نیب پلی بارگین پر خوش ہے جس سے کرپشن میں کمی نہیں ہوگی ۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر ایماندار انہ طریقے سے عمل کیا جائے ۔ یہ تمام کام صرف مقامی لوگ کر سکتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے سماج کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ہونا تو یہ چائیے کہ کرپشن میں ملوث افراد کی تمام جائیداد ضبط کی جائے اوران کو تا حیات جیل میں رکھا جائے یا کم سے کم چالیس سال قید کی سزا دی جائے تب کرپشن میں کمی کے امکانات ہوں گے ۔

تاہم یہ وفاقی محکمہ نہیں ہے اس کا تعلق امن عامہ سے ہے جو صوبائی معاملہ ہے، اس لیے نیب کو صرف اور صرف اسلام آباد تک محدود کیاجائے صوبوں میں صوبائی حکومتیں کارروائی کریں کیونکہ یہی اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ پنجاب سے آنے والا افسر مقامی سماج اور حکومت کے سامنے جوابدہ نہیں ہے ۔

ویسے بھی وفاق کے افسران اپنے آپ کو بلوچستان کاحاکم اعلیٰ تصور کرتے ہیں اورایک غرور اور گھمنڈ کے ساتھ کام کرتے ہیں اسی لیے بلوچستان میں ایسے افسران انتہائی ناپسندیدہ شمار ہوتے ہیں ۔