|

وقتِ اشاعت :   October 6 – 2017

سینٹ کی فنکشننگ کمیٹی کا ایک اجلاس سینیٹر کبیر محمد شہی کی زیر صدارت کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ 18ویں ترمیم کے تحت جتنی بھی وزارتیں اور ڈویژن صوبوں کو منتقل کیے گئے تھے وہی محکمے دوسرے ناموں سے وفاقی حکومت نے اپنے پاس رکھ لیے ہیں جو آئین کے بنیادی روح کے منافی ہے اور اس کا مقصد صوبائی حقوق کو سلب کرنا اور وفاقی اکائیوں کے اختیارات پر قدغن لگاناہے۔ 

18ویں آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد چھوٹے صوبوں کے ان شکایات کا ازالہ کرنا تھا کہ مرکز ضرورت سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے اور صوبوں کے پاس کچھ بھی نہیں ۔ 1973ء کے آئین پر بلوچستان کے اکثریتی نمائندوں کے دستخط نہیں ہیں بلکہ حقیقی معنوں میں 1973ء کے آئین کو بلوچستان نے ویٹو کردیا تھایعنی ایک صوبے نے تین دوسرے صوبوں کے ساتھ آئین کے مسئلے پر الگ رائے رکھی ۔

آئین بنانے والے اس وقت زیادہ پریشان ہوگئے کہ ایک اہم ترین وفاقی اکائی نے 1973ء کے آئین کے حق میں ووٹ نہیں دیا بلکہ اس کو ویٹو کردیا۔ ان نمائندوں میں نواب خیر بخش مری ‘ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور محترم جنیفر موسیٰ شامل تھے جبکہ غوث بخش بزنجو نے سیاسی وجوہات کی بنا ء پر نہ صرف خود ووٹ دیا بلکہ اپنے قائد عبدالولی خان سے زبردستی ووٹ دلوا یا۔ 

جمعیت کا ایک ووٹ پہلے ہی سے بھٹو صاحب نے اپنی جیب میں ڈالا ہوا تھا۔ اس طرح اکثریت نے آئین کے حق میں ووٹ نہیں دیا ۔ اس پر حکومت پریشان ہوگئی اور حفیظ پیر زادہ نے آئین ساز اسمبلی کے فلور پر یہ اعلان کیا کہ آئین میں درج مشترکہ فہرست اگلے دس سالوں میں صوبوں کے حوالے کی جائے گی ۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کو بر طرف کردیا ۔ 

بعد ازاں اس وعدہ پر 30سال بعد عمل ہوا، اس کا سہرا پی پی پی کے چند ایک رہنماؤں کو جاتا ہے جنہوں نے محنت کرکے 18ویں آئینی ترمیم پارلیمان سے منظور کروایا تاکہ وہ اپنا آئینی وعدہ پور ا کریں۔ جس دن 18ویں ترمیم پارلیمان سے منظور ہوئی تو مقتدرہ کے حکم سے اس خبر کا بلیک آؤٹ کیا گیا ۔ 80سے زائد ٹی وی چینلوں نے اس خبر کا بائیکاٹ کیا اور اس کے بجائے بھارتی ٹینس کھلاڑی ثانیہ مرزا کی شادی کی تقریب عوام الناس کو دکھائی ۔ 

تقریباً تین دنوں تک ٹی وی چینلز نے ثانیہ مرزا کی شادی کا جشن منایا اور لوگوں کو اس خبر سے محروم رکھا کہ 18ویں ترمیم میں صوبوں کو کچھ زیادہ اختیارات مل گئے ہیں جس پر ممکنہ طورپر عمل نہیں ہونے دیا گیا ۔ بلکہ وفاق نے تمام اثاثہ جات اپنے پاس رکھ لیے اور اخراجات صوبوں کے حوالے کیے۔

صوبوں کو وسائل فراہم نہیں کیے گئے چنانچہ 18ویں ترمیم کے بعد بعض چلتے منصوبے بند کردئیے گئے اور مرکزی حکومت کی جانب سے واضح حکم نامہ صادر کیا گیا کہ صوبے اپنے وسائل سے ان منصوبوں کو مکمل کریں ۔

بلوچستان میں جمعیت کے وزراء نے بھی ان منصوبوں کے لیے وسائل فراہم کرنے سے انکار کیا اور پورے بجٹ پر اپنا حق جتایا ۔سب سے زیادہ نقصان پانی کے شعبہ میں ہوا ۔ کچھی کینال کا منصوبہ ایک انقلابی قدم تھا جس کا مقصد لاکھوں ایکڑ زمین آباد کرنا تھا لیکن جمعیت کے وزیر برائے منصوبہ بندی اس کے سب سے بڑے مخالف نکلے انہوں نے بلوچستان کے وسائل کو گٹر اور نالوں پر خرچ کردیا اور آبپاشی کے ایک بڑے منصوبہ کو ویٹو کردیا ۔

موجودہ صور ت حال میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وفاقی اکائیوں کو زیادہ مضبوط بنایا جائے ان کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائے، اختیارات کی منصفانہ تقسیم ہو تاکہ نچلی سطح پراس کے اثرات پہنچ سکیں ۔ 

دوسرے الفاظ میں دوردراز علاقوں کے لوگوں کو بھی ا ختیارات دئیے جائیں تاکہ مقامی نوعیت کے مسائل کے لیے اسلام آباد کا رخ نہ کرنا پڑے اوران کے مسائل صوبوں کے اندر حل ہوں ۔ 

18ویں آئینی ترمیم پر اس کے روح کے مطابق عمل کیاجائے تاکہ صوبے زیادہ خودمختار ہوں بلکہ موجودہ حالات اس بات کے زیادہ متقاضی ہیں کہ ان کو مکمل خودمختاری دی جائے تاکہ پاکستان پر کوئی فرد واحد اپنی بادشاہت قائم نہ کر سکے ۔