|

وقتِ اشاعت :   October 7 – 2017

نا معلوم دہشت گردوں نے ایک بار پھر فتح پور (گنداوا) کے درگاہ کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا جس میں 22افراد شہید اور 35زخمی ہوئے ۔ تا حال کسی بھی دہشت گرد گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ فرقہ پرست اور شدت پسند مذہبی تنظیم کی کارستانی ہے ۔ 

اس میں دو رائے نہیں ہے کہ یہ مذہبی ‘ جنونی اور فرقہ وارانہ سیاست کا شاخسانہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بلوچستان میں روا داری ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں مختلف فرقوں اور مذاہب کے لوگ صدیوں سے امن و سکون اور باہمی اعتماد کے ساتھ رہتے آئے ہیں ۔ 

افغانستان کے اندر جنگی مفادات کو فروغ دینے کے لئے بلوچستان کو خاص طورپر نشانہ بنایا گیا افغان جنگی کے لیے جنونی اور فرقہ پرستوں کی بھرتی کے لئے سینکڑوں دینی مدارس سرکاری سرپرستی میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بنائے اور ان کو ہر طرح کی مالی اور انتظامی معاونت بھی فراہم کی جو ایک نا قابل تردید حقیقت ہے۔ 

اس کے دو واضح مقاصد تھے پہلے یہ کہ بلوچستان کے سیکولر کلچر ‘ برداشت کے کلچر کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے اور افغانستان کی خانہ جنگی کو تقویت دینے کے لئے دینی مدارس اور مجاہدین تیار کیے جائیں۔ امریکی حکومت کی جانب سے 3.6ارب ڈالر کی امداد کا بنیادی مقصد پاکستان کے انسانی وسائل کو افغان خانہ جنگی میں جھونکنا تھا تاکہ افغانستان سے روسی فوجی انخلاء کو تیز تر کیاجائے ۔

جنرل ضیاء الحق اور اس کے جنرل سٹاف نے جب سابق میر غوث بخش بزنجو کو مشاورت کے لیے طلب کیا توانہوں نے جنرل اسٹاف کو وارننگ دی اگر انہوں نے کرائے کے افراد کو اسلحہ دیا، تربیت دی اور ان کی پشت پناہی کی تو آئندہ یہی لوگ بندوق کا رخ پاکستان اور اس کی ریاست کی طرف پھیر دیں گے ۔

ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی آج وہی مذہبی جنونی ‘ فرقہ پرست ریاست پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اور اس کے لئے سب کچھ کرنے کو تیا ر نظر آتے ہیں ۔ پاکستان ایک پر امن ملک تھا اس کے امن اور سلامتی کو اس کے اپنے ہی حکمرانوں نے تباہ کیا ،اب ان میں بیرونی ممالک کے ایجنٹ بھی شامل ہوچکے ہیں جو کارروائیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ 

بلوچستان کے دوردراز درگاہوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنانے کا واحد مقصد ریاست پاکستان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا اور بلوچستان کے دائمی انسان دوست معاشرے کو تباہ کرنا ہے ۔ اس واقعہ میں ایک سپاہی نے بہادری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے خودکش بمبار کو گیٹ پر ہی دبوچ لیا جس سے دھماکہ ہوا ۔ 

پولیس کے عظیم سپاہی جن کا نام بھی بہادر تھا، اس واقعہ میں شہید ہوگئے اور بمبار کو درگاہ کے اندر داخل نہیں ہونے دیا ۔اس حملہ میں تین دیگر سپاہی بھی شہید ہوئے ۔ ان دلیر پولیس کے سپاہیوں نے زیادہ انسانی جانوں کو نقصان سے بچایا ۔ یقیناً یہ بہادر سپاہی ہر طرح کی تحسین کے حقدار ہیں ۔ 

تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مذہبی جنونی اور فرقہ پرست عناصر کا پتہ لگایا جائے جو بلوچستان کے امن و امان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، یہ ریاست اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس کے نیٹ ورک کا نہ صرف پتہ لگایا جائے بلکہ اس کو بھی تباہ کیاجائے ۔

اس میں بھی دو رائے نہیں کہ یہ خود کش بمبار ان جنونی اور فرقہ پرست مذہبی مدارس کی پیداوار ہیں ۔ مدارس کے بغیر ان کی برین واشنگ اور کہیں نہیں ہوسکتی بلکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کہیں اور ان کی تربیت ہو ۔

اس لیے ہم ہمیشہ یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ان تمام دینی مدارس کا کنٹرول حکومت سنبھالے اور ان مدارس کو ایک زیادہ وسیع تر تعلیمی ادارے کے طورپر چلائے ،طلباء کی سہولیات اور مراعات میں کوئی کمی نہ کی جائے اوران مدارس کو ملک کے وسیع تر تعلیمی نظام کا حصہ بنایاجائے جس سے مشکوک بیرونی امداد کی راہ بند ہوجائے گی اور نہ ہی کوئی یہ جرات کرے گا کہ طلباء کو دینی تعلیم کے بجائے جنگی تربیت دے ۔

ایک ملک کے اندر صرف ایک نظام تعلیم ہو جو سب کے لیے یکساں ہو ۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قوم کی اس ضرورت کو پورا کرے تاکہ کوئی گروہ شعبہ تعلیم کو دولت کمانے کی صنعت نہ بنائے ۔