|

وقتِ اشاعت :   October 9 – 2017

بلوچستان کے مقامی اخبارات کا ہمیشہ سے ایک مثبت کردار رہا ہے جن کے موجودہ حکومت سمیت گزشتہ تمام حکومتوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں ۔

بنیادی طورپر بلوچستان کا حقیقی پریس محکوم اور دباؤ کا شکار ہے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ان کا واحد ذریعہ آمدن صرف صوبائی حکومت کے اشہارات تھے اور ہیں جس کو تمام حکومتوں نے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔

بلوچستان چونکہ گزشتہ 180سالوں سے تنازعہ کازون Zone of Conflictہے اور آج بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے اس لئے آزاد خیال اخبارات پر دن بدن دباؤ بڑھتا جارہا ہے ۔

اخبارکے مدیروں کے ساتھ ملاقات میں وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے ایک سے زائد صوبائی میڈیا منیجروں کو بتایا کہ حقیقی اور مقامی اخبارات کا بلوچستان کے علاقوں میں اثر ورسوخ ہے لیکن ہر بار میڈیا منیجر صاحبان نے وزیراعلیٰ کے ان اہم کلمات کو نظر انداز کیا، مقامی اور حقیقی اخبارات کے خلاف زہر اگلتے رہے اور اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہے اور اپنا اسکور برابر کرتے رہے ۔

اس نفرت کی اصل بنیاد مضبوط صحافتی اقدار اور پیشہ ورانہ اپروچ ہے جس کو نیم خواندہ میڈیا منیجر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

بلوچستان کے درجن بھر سے زائد میڈیا منیجروں کا یہی رویہ رہا سوائے ان صوبائی کیڈرکے افسران کے جو مختصر مدت کے لئے آئے اور انہوں نےStatus Quoبر قرار رکھا اور اپنے سر غلاظت کا ملبہ نہیں ڈالا، اور ساتھ ہی انہوں نے اخبارات کی بہتری کے لیے بھی کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا۔

بلوچستان کے اخبارات تین حصوں میں تقسیم ہیں۔ پہلا حصہ کا رپوریٹ اخبارات کا ہے جو بلوچستان کے بجٹ کا پچاس فیصد سے زیادہ اور وفاقی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بلوچستان کے حصے کا نوے فیصد بھی لے جاتے ہیں ۔ ان کا بلوچستان میں اسٹیک صرف 4سب ایڈیٹر صاحبان ہیں ۔

دوسرے حصے میں 170سے زائد ڈمی اخبارات ہیں جو صرف اشتہارات چھاپتے ہیں، تیسرے وہ اخبارات ہیں جو مقامی ہیں حقیقی ہیں بلکہ بلوچستان کی رائے عامہ پر ان کا پور اکنٹرول ہے ۔

ان میں انگریزی روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی اور انتخاب شامل ہیں ۔یہ اخبارات دوردراز علاقوں میں با قاعدگی کے ساتھ جاتے ہیں اور ان کا ایک بہت وسیع حلقہ اثر ہے ۔

کارپوریٹ اخبارات کی دلچسپی صرف اشتہارات اور ریونیو تک محدود ہے ان میں چھپنے والے مواد اور مضامین کا بلوچستان کے مسائل اور واقعات سے کوئی تعلق نہیں ہوتابلکہ وہ بلوچستان کے بنیادی مسائل سے واقف نہیں ۔ ایک واقعہ ان اخبارات کی پالیسی کی صحیح نمائندگی کرتا ہے ۔

ٹھیکے دارصاحبان نے صوبائی اسمبلی کے اراکین کے خلاف اشتہار دیا جو صرف کارپوریٹ میڈیا نے چھاپ دیا جس کا بلوچستان کے روایات سے کوئی تعلق نہیں، جب اشتہارچھپا توایک قیامت برپا ہوگئی ۔ مطالبہ ہوا کہ ان کے اجازت نامے منسوخ کیے جائیں ۔

بلوچستان کے مقامی اور حقیقی اخبارات یہ تصور نہیں کر سکتے کہ وہ منتخب نمائندوں کی عزت نفس پر حملہ کریں اور ان پر ریونیو کی بنیاد پر سنگین الزامات لگائیں ۔

یہ ہے بنیادی فرق جو حقیقی اور مقامی اور مقبول ترین اخبار ات اور کارپوریٹ اخبارات کے درمیان جن کو دولت کمانے کی مشین میں تبدیل کردیاگیا ہے ۔

ایک تو مقامی اور مقبول اخبار پروفیشنل ہیں لہذا میڈیا منیجر صاحبان ان کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتے۔

اگر اخبارات میں کوئی خبر چھپ جائے تو ا سکا جواب میڈیا منیجر لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یہ عمل صوبائی محکموں پر چھوڑ دیا جاتا ہے اس وجہ سے مقامی اور حقیقی اخبارات پروفیشنلزم کی وجہ سے نفرت کا شکار ہیں۔

ان میڈیا منیجروں کی روز اول سے کوشش ہے کہ ان تین چار مقامی اخبارات کا قتل عام کیاجائے ۔

ان کے ذرائع آمدن کو محدود تر کیاجائے اور ان کے ترقی کے راستے بند کیے جائیں ۔ یہ پروفیشنلزم کے خلاف نفرت کا اظہار ہے ہمارے اخبارات ادارے بن چکے ہیں ۔

ہمارے ادارے سے 100سے زیادہ تربیت یافتہ اخبار نویس بلوچستان اور کراچی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ پانچ ایسے اخبار نویس ہیں جو بین الاقوامی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ماہانہ پانچ لاکھ سے زیادہ تنخواہ حاصل کررہے ہیں ۔