|

وقتِ اشاعت :   October 10 – 2017

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کچھی کینال منصوبے سے متعلق اب تک کوئی تردید یا وضاحت سامنے نہیں آئی کہ آیا اسے تر ک کردیاگیا ہے یا اس کو مکمل کیا جائے گا ۔شاید اتنی زبر دست خاموشی کے بعد اس بات کی توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتیں اس کی تصدیق کریں گے۔

اب بلوچستان کے عوام کچھی کینال کے منصوبے کو دفن ہی سمجھ لیں ۔اگر مستقبل کے کسی حکومت نے اس کو بحال کردیا تو اور بات ہے موجودہ حالات میں اس کے امکانات نہیں ہیں کہ وفاقی حکومت صوبے کو خطیر رقم فراہم کر کے گوادر کی بندر گاہ، کچھی کینال، گوادر ائیرپورٹ کی تعمیر یادوسرے میگا پروجیکٹ شروع کرے گا۔

آج کل کے کشیدہ حالات اس بات کی اجازت وفاقی حکومت کو نہیں دیتے کہ وہ بڑے پیمانے پر وسائل بلوچستان منتقل کرے اور میگا پروجیکٹس پرعمل درآمد کرے۔ وفاقی اورصوبائی حکمران بلند وبانگ دعوؤں سے باز نہیں آتے اور تواتر سے سی پیک کا تذکرہ کرتے ہیں وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ گوادر کے عوام کو پینے کا پانی نصیب نہیں۔ ایک پانی کا ٹینکر گزشتہ دنوں 28ہزار روپے میں فروخت ہوا۔

70سال بعد بھی اہم ترین بلوچ بندرگاہ کے باسیوں کو پینے کا پانی یا گھریلو استعمال کیلئے پانی نہیں ملتا تو باہر سے آنے والے جہازوں کو پانی کہاں سے ملے گا یا صنعتی اور تجارتی ضروریات کیلئے پانی کہا ں سے آئے گا۔

پانی کے وسائل کو ترقی دینے کے منصوبوں پرگزشتہ 10سالوں میں عمل درآمد نہیں ہوا۔ مہرانی ڈیم کے بعدکوئی ڈیم تعمیر نہیں ہوا اور نولانگ ڈیم کی تعمیر میں بھی 10سال کی تاخیر کی گئی ۔ آرسی ڈی ہائی وے گزشتہ 60سالوں سے زیر تعمیر ہے اور مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔

گوادر رتو ڈیرو ہائی وے سیکشن ابھی تک زیر تعمیر ہے ،دیگر سیکشنز کی تعمیر کیلئے مزید دو سال کی ضرورت ہوگی ۔ صوبائی اوروفاقی حکمران اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ گوادررتو ڈیروہائی وے شاہراہ نامکمل اورزیر تعمیر ہے۔

کچھی کینال کا منصوبہ بلوچستان کے عوام کیلئے گوادر اور سی پیک سے زیادہ اہم ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک کچھی کینال کے ایک سیکشن پر کام مکمل ہوا ہے جس پر کرپٹ حکمرانوں نے 80ارب خرچ کیے یاہڑپ کرلئے۔ اب تک کی کچھی کینال منصوبے سے صرف 72ہزار ایکڑ زمین آباد ہوگی جبکہ حقیقی منصوبہ کے مطابق کچھی کینال نے 7لاکھ ایکڑ زمین کوسیراب کرنا ہے خصوصا گنداوا اور بیل پٹ کے بالائی علاقوں کو، اس پر کل اخراجات کا تخمینہ 50ارب روپے لگایا گیا تھا۔

یہ منصوبہ جنرل پرویز مشرف نے 2002میں شروع کیاتھا۔ ابھی اس کے دوسرے اورتیسرے مراحل کی تعمیر ہونا باقی ہے جبکہ پہلے مرحلے پر 80ارب خرچ ہوئے۔ وجہ۔۔۔ بلوچستان کے منصوبوں پر وسیع پیمانے کا کرپشن ہے۔

کچھی کینال منصوبہ پر صوبائی حکمرانوں کی سرد مہری ناقابل فہم ہے جبکہ یہ منصوبہ حقیقی معنوں میں گیم چینجر ہے۔ صوبائی حکمرانوں نے اس کی تعمیر میں تاخیر پر احتجاج تو درکنار، معمولی اخباری بیان دینے سے بھی گریز کیا۔

کچھی کینال کے بقیہ منصوبہ پر ایک اندازے کے مطابق 120ارب روپے اورخرچ ہونگے اور اتنی بڑی رقم موجودہ حالات میں وفاقی حکومت سے ملنے کی کوئی توقع نہیں ہے اسی لئے صوبائی حکمرانوں نے چپ سادھ لیا ہے۔

صوبائی اراکین اسمبلی کی سیاست میں واحددلچسپی ایم پی اے فنڈ اور پی ایس ڈی پی ہے۔ ایک دکاندار کو ڈائنامائٹ کا لائسنس ملنے میں تاخیرپرتو اسمبلی میں قیامت برپا ہوگئی لیکن کچھی کینال جیسے اہم منصوبے کو کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔

ادھروفاقی حکومت120ارب روپے مزید خرچ کرنے سے انکار ی ہے جس کا مطلب 7لاکھ ایکڑ زمین غیر آباد رہے گی اور بلوچستان پسما ندہ اوربھوکاہی رہے گا۔ طاقتور لوگ کچھی کینال کا بقیہ حصہ تعمیر نہیں کریں گے خصوصاً موجودہ صورت حال میں اور صوبائی حکمران اس پر ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں۔

کچھی کینال کی تعمیر کا مطلب بلوچستان غذائی معاملات میں سندھ اور پنجاب کامحتاج نہیں رہے گا اور غذائی پیداوارمیں خودکفیل ہوگا اور شاید یہ ہمارے اصل حکمرانوں کو منظور نہیں۔