|

وقتِ اشاعت :   October 13 – 2017

آرمی چیف جنرل قمرہ باجوہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سیکورٹی اور معاشی ترقی کے درمیان ایک توازن ہونا چائیے ۔

انہوں نے خاص طورپر بلوچستان ‘ اندرون سندھ‘ جنوبی پنجاب اور گلگت ، بلتستان کا ذکر کیا جو پسماندہ ترین علاقے ہیں۔

ان علاقوں کو ترقی کی دوڑ میں نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ ظلم خدا کا کہ ستر سال گزر جانے کے بعد بھی ان علاقوں میں مستقبل کی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچہ ہی تیار نہیں کیا گیا ۔ اور اگر اب اس بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کاکام شروع کیا جائے تواس کو مکمل ہونے میں پچاس سال لگیں گے۔

اس کی مثال بلوچستان ہے اس کے دوردراز علاقوں میں کوئی صنعت نہیں ہے اور جوصنعتیں ہیں وہ بلوچستان سے زیادہ سندھ کے لیے فائدہ مند ہیں کیونکہ یہ صنعتیں حب اور وندر میں لگائی گئی ہیں۔ یہ صنعتیں اس وقت لگائی گئیں جب حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مراعات دینے کا اعلان کیا ۔

جب وہ مراعات حکومت پاکستان نے واپس لیں تو 300سے زائد صنعتیں حب اور وندر سے منتقل ہو کر پنجاب چلی گئیں جہاں بلوچستان کی نسبت زیادہ ٹیکسزمیں چھوٹ کے علاوہ دوسری بہت ساری ترغیبات بھی دی گئیں۔ اس لیے بلوچستان میں جو بھی کارخانے لگائے گئے وہ کراچی کے قریب تھے جہاں ترقی کا بنیادی ڈھانچہ موجود تھا بلکہ وہ کراچی کا ہی حصہ تھا ۔

دوردراز علاقوں کو دانستہ طورپر پسماندہ رکھا گیا وہاں بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں بنایا گیا تو ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے ۔ بلوچستان کے بعض علاقے اتنے پر کشش ہیں کہ وہاں پر ترقی کے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں ان میں پورا لسبیلہ ضلع‘ نصیر آباد، پورا مکران ڈویژن بشمول اس کی ساحلی پٹی جہاں پر سرمایہ کاری کے زبردست مواقع موجود ہیں ۔

ایرانی بندر گاہ چاہ بہار گوادرسے تقریباً 72کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے جہاں پر جاپان ‘ کوریا اور دیگر یورپی ممالک پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کررہے ہیں حالانکہ یہ تمام ممالک پہلے گوادر میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے ۔

مگر ترقی کی سست رفتاری کے باعث ان ممالک نے چاہ بہاربندر گاہ میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جاپان ایک اسٹیل مل لگا رہا ہے جس کی پیداوار بیس لاکھ ٹن ہوگی جبکہ جنوبی کوریا کااسٹیل مل پندرہ لاکھ ٹن پیداوار دے گا جبکہ اس کے مقابلے میں کراچی کے اسٹیل مل کی پیداواری اہلیت صرف ایک لاکھ ٹن ہے۔

ساحل مکران آئندہ چند سالوں میں پورے خطے کا صنعتی اور معاشی ترقی کا بہت بڑا مرکز بنے گا اس لیے مکران ‘ لسبیلہ اور نصیر آباد پر زیادہ توجہ دی جائے۔ اس طرح گلگت بلتستان ‘ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ۔

وجہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ان کم ترقی یافتہ علاقوں پربہت کم توجہ دی ہے بلکہ ان تمام علاقوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا ررکھا گیا۔ ساری کی ساری توجہ وسطی پنجاب اور کراچی پر مر کوز کی گئی ہے جس سے عوام الناس میں بد دلی اور نا امیدی پیدا ہوگئی ہے ۔

آرمی چیف کا اشارہ شاید یہی ہے کہ کم ترقی یافتہ علاقوں پر توجہ دی جائے گی جس سے معیشت اور سیکورٹی کے درمیان ایک خوشگوار توازن قائم ہوگی ۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں اور خصوصاًمشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات کے پیش نظر سیکورٹی کو زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔

ملکی دفاع پہلے اور اس کے بعد ترقی ‘ اس لیے سیکورٹی اور ملکی دفاع کے بارے میں غافل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ ملک کے دفاع کو ہر چیز پر اولیت دی جائے۔ تاہم گزشتہ ستر سالوں کی کوتاہیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے اگر ہمارے وزارت خارجہ کے دانشور یہ بنیادی غلطی نہیں کرتے اور ابتداء ہی سے گلگت اور بلتستان کو پاکستان کا ایک صوبہ بنا لیتے تو امریکا سی پیک کے روٹ پر انگلی نہ اٹھاتا،اور نہ ہی گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ بنتا۔

بہر حال یہ معاملہ ریاست کا ہے ریاست جو بھی فیصلہ کرے گا وہ عوام اور ملک کے مفاد میں ہوگا اسی طرح اندرون سندھ کی آبادی پر روز بروز دباؤ بڑھایا جارہا ہے ۔ دنیا بھر کے مہاجرین کراچی کا رخ کررہے ہیں جس کا مقصد سندھیوں کو اپنے ہی وطن میں اقلیت بنانا مقصود ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام غیر قانونی تارکین وطن کو سندھ اور بلوچستان سے فوری طورپر نکالاجائے ۔