|

وقتِ اشاعت :   November 3 – 2017

وفاقی حکمرانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں بلوچستان کو قومی اسمبلی کی دو اضافی نشستیں دی جائیں گی۔ شاید حکمران اسی کو بلوچستان کی دہائیوں کی احساس محرومی اور مایوسیوں کا مداوا سمجھتے ہیں۔

کچھ عرصے سے سرکاری ذرائع یہ اشارہ دے رہے تھے کہ بلوچستان کی وفاق میں نمائندگی میں اضافہ کیاجائے گا خصوصاً قومی اسمبلی کی سیٹیں بڑھائی جائیں گی۔

سرکاری دانشور اور اہلکار اس کو ایک بڑی رعایت سمجھتے ہیں کہ بلوچستان سے دو مزید افراد کو قومی اسمبلی کا رکن بنایا جائے گا اور ان کو بھی وہی مراعات اور تنخواہیں دی جائیں گی جتنی دیگر نمائندوں کوحاصل ہیں جنہوں نے اس سے قبل مجموعی طورپر عوام الناس کو مایوس کیاہے ۔

تاہم اگر کسی رکن اسمبلی نے ہمت کرکے قومی اسمبلی یا سینٹ میں کبھی کبھار آوازاُٹھائی بھی تو وفاقی حکومت اور اس کے اداروں کی جانب سے ان کی آواز کو سلب کردیا گیا ،ان کی بات بلوچستان کے عوام تک نہیں پہنچی ۔

لہذا وہ اراکین بھی اس زمرے میںآگئے جو خاموشی سے ریاستی پالیسی کی حمایت کرتے یا حکومت کے اتحادی ہیں۔نشستیں بڑھانے کی بجائے اگر وفاق یہ فیصلہ کرے کہ قومی اسمبلی میں تمام صوبوں کی نمائندگی برابر ہوگی تو اس کا اثر چھوٹے صوبوں کے عوام پر ضرور پڑے گا کیونکہ اس سے پنجاب کی بالادستی کم ہوگی۔ لیکن ایسا ہوگا نہیں بلوچستان اور کے پی کے کی نمائندگی میں ایک آدھ سیٹ کے اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔

مسئلہ اختیارات کی منصفانہ تقسیم کا ہے مرکزی حکومت نے زیادہ سے زیادہ اختیارات دھونس دھاندلی سے ہتھیا لیے ہیں اور مرکز کو ضرورت سے زیادہ مضبوط بنا دیا ہے اورصوبوں کے اختیارات پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔

وفاقی اور سیاسی نظام حکومت کا خاتمہ اسی دن ہوگیا تھا جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے ناظم الدین حکومت کا خاتمہ کیا اور اپنی شخصی حکومت قائم کی۔ اس دن سے لے کر آج تک دوبارہ وفاقی نظام حکومت بحال نہیں ہو سکا ۔

ملک غلام محمد کے بعد سکندر مرزا ‘ ایوب خان ‘ یحییٰ خان ‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کی ذاتی حکمرانی رہی ۔

یہ شخصیات کسی قانون اور آئین کے تابع نہیں تھے یہ سب کے سب آمر تھے اور پورے ملک کو ایک انتظامی یونٹ سمجھتے تھے اور ان پر براہ راست حکمرانی کرتے تھے ۔ اسطرح صوبوں کی حیثیت ایک میونسپل ادارے سے زیادہ نہیں رہی۔

آئے دن صوبوں کے اختیارات سلب ہوتے رہے او راب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے پاس صرف جھاڑ و پھیرنے کے اختیارات رہ گئے ہیں ۔ امن عامہ بھی وفاقی اداروں کے پاس ہے ان کی مرضی ہے کہ عوام سے جو چاہے سلوک کریں کیونکہ وہ صوبائی اسمبلی اور صوبائی حکومت کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں ۔

ظلم خدا کا ،پارلیمان نے18ویں آئینی ترمیم پاس کر لی لیکن سرکاری ملازمین اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں ،انہوں نے حقیقی طورپر آئینی ترمیم کو ویٹو کردیا ہے اور اپنے اس طرز عمل سے صوبوں میں بڑے پیمانے پر بد دلی پھیلائی ہے۔

اس کی مثال سندھک کا تازہ ترین معاہدہ ہے یہ صوبائی معاملہ ہے اوراس کا معاہدہ اب بھی وفاق کرتا ہے جس میں بلوچستان کا حصہ صرف ڈھائی فیصد رائلٹی تک محدود ہے باقی 98فیصد حصہ وفاق پاکستان اور چینی کمپنی لے جارہے ہیں ۔

وفاقی حکومت کے اس تکبرانہ عمل سے بلوچستان کے عوام میں شدید رد عمل پیدا ہوا ۔ ایسے تمام مسائل کا علاج صرف اور صرف مکمل صوبائی خودمختاری ہے۔اگر حکمرانوں کو صوبوں کے عوام کی حمایت درکار ہے تو موجودہ سنگین صورت حال کے پیش نظر صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دئیے جائیں۔

وفاق یا مرکزی حکومت کے پاس کم سے کم اختیارات ہوں ۔ قرار داد پاکستان کے تحت اس کے پاس دفاع اور خارجہ کے محکمے ہوں ۔

یا چند ایک اور اہم وفاقی محکمے مرکز کے پاس رہیں اور باقی تمام اختیارات اور محکمے مکمل خودمختار ی کے ساتھ صوبوں کے حوالے کیے جائیں ۔

نیب کے راج کو جنرل پرویزمشرف نے اپنے سیاسی مقاصد کے تحت ملک بھر پر مسلط کردیا آج سندھ کا وزیراعلیٰ سندھ اسمبلی کے اندر فریاد کرتا ہوا سنائی دے رہا ہے ان کے احتجاج سے واضح طورپر یہ تاثر ملتا ہے کہ سندھ کا وزیر اعلیٰ اپنے آپ کو محکوم سمجھتا ہے جو ایک خطر ناک رحجان ہے ۔