|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2017

ن لیگی رہنماؤں کے رویے کے باعث ملک ایک غیر یقینی صورت حال کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے جو خدانخواستہ کسی بڑے نقصان کاباعث بن سکتاہے۔

اس صورت حال کی تمام تر ذمہ داری مسلم لیگ پر ہے ۔ ابتداء سے ہی اس کا رویہ ریاستی اداروں کے خلاف معاندانہ رہا ہے ۔

ڈان لیکس اس کی انتہا تھی کہ فوج پر الزامات لگائے گئے اورملک کو بدنام کیا گیا کہ پاکستان دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کررہا ہے بلکہ دراندازی کررہا ہے۔

صورت حال اسی وقت سے خراب ہے جب حکومتی رہنماؤں نے ڈان اخبار میں خبر چھپوائی جس سے ملک کے اندر ایک سیاسی بھونچال آگیا ۔ اس سے قبل پانامہ لیکس کامعاملہ بھی چل رہا تھا ۔

اس حوالے سے ملک بھر میں احتجاج ہوا کہ ملک کا وزیراعظم منی لانڈرنگ کے اسکینڈل میں ملوث ہے جس کی بناء پر سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا ،اس کے بعد سے ملک میں غیر یقینی کی صورت حال ہے۔

سابق وزیراعظم سپریم کورٹ فیصلے کی مختلف طریقوں سے مزاحمت کررہے ہیں اور ریاستی اداروں خصوصاً عدلیہ اور افواج پاکستان پراپنا دباؤ بڑھا رہا ہے ۔

سپریم کورٹ سے نا اہلی کے باوجود نواز شریف نے پارلیمان سے یہ قانون پاس کروایا کہ نا اہلی کے بعد بھی وہ مسلم لیگ ن کے صدر رہ سکتے ہیں ۔

چند سینیٹرز نے حکومتی پارٹی کو ووٹ دے کر سینٹ سے یہ قانون پاس کروایا جہاں پر اپوزیشن کی اکثریت ہے جبکہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی واضح اکثریت ہے ۔

سینٹ میں حزب اختلاف کے بعض اراکین نے حکومت کو کیوں ووٹ دیا، ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکاالبتہ متعلقہ پارٹیوں نے اپنے اُن اراکین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے۔

جبکہ بعض سینیٹرز جان بوجھ کر اجلاس میں نہیں آئے تاکہ مسلم لیگ یہ متنازعہ قانون پاس کرواسکے ۔

تاہم اپوزیشن رہنماؤں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے کہ نا اہل شخص وزیراعظم نہیں رہ سکتا تو وہ پارٹی کا صدر کیسے رہ سکتا ہے ۔اب معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے ۔

یہ سب کچھ نواز شریف اور اس کے خاندان کی پریشانی کا اظہار ہے کہ حکمرانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے ہاتھ سے جاتی نظر آرہی ہے ۔

اس لیے نواز شریف اور اس کا خاندان تاخیری حربے اختیار کررہا ہے ، احتساب عدالت میں جو کچھ ہوا وہ اس بات کی گواہی ہے کہ نوزاشریف اور اس کے حامی احتسابی عمل میں رخنہ ڈال رہے ہیں۔

آنے والے دنوں میں معلوم ہوجائے گا کہ ریاستی ادارے کس طرح اس احتسابی عمل کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

دوسری طرف عمران خان نے یہ دھمکی دی ہے کہ عنقریب وہ سڑکوں پر آئیں گے اور احتسابی عمل کی سست روی کے خلاف احتجاج کریں گے ۔

اسی طرح پی پی پی نے بھی نواز شریف کو یہی مشورہ دیاہے کہ وہ عدالتوں کا سامنا کریں اور جدوجہد کریں اگر ان کو سیاسی میدان میں زندہ اور با عمل رہنا ہے لیکن نواز شریف اور ان کے ساتھی ہر قیمت پر اقتدار میں دوبارہ آنا چاہتے ہیں اور اسکے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔

سیاست ایک عبادت ہے مگر نواز شریف نے سیاست میں صرف بادشاہت کی اور لوگوں کی رائے کو کبھی اہمیت نہیں دی اور ہمیشہ اپنا فیصلہ تھوپتے رہے ۔ جب بھی ان کو موقع ملا انہوں نے چاپلوس لوگوں کو اہمیت دی، سیاسی دوستوں کو نظر انداز کیا ۔

اپنے دو ادوار میں صدر پاکستان ایسے اشخاص کو چنا جن کو ملک بھر میں کوئی نہیں جانتا ۔سندھ کا گورنر اپنے ایک فرما نبردار کو بنا دیا جس کا کام سندھ حکومت کے لئے مشکلا ت پیدا کرنا ہے اور ایم کیو ایم کی سرپرستی کرنا ہے ۔

نواز شریف کے پاس کوئی سیاسی سوچ ہی نہیں ہے نہ ہی اس کے پاس کوئی سیاسی حکمت عملی ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو مشکلات سے نکالے ۔

ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور نوازشریف اپنے ذاتی مفاد میں ملک اور اکیس کروڑ عوام کی قسمت سے کھیلنا چاہتے ہیں ان کی بلا سے ملک میں کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے ۔

عقل اور خرد سے ہاری شخص سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لئے کوئی کردار ادا کریں گے۔

ہونا تو یہ چائیے کہ وسیع تر سیاسی اتحاد بنایا جائے اور دوسری سیاسی پارٹیوں اور ہم خیال جماعتوں سے مل کر ایسی حکمت عملی تشکیل دی جائے کہ ملک خطرات سے نکل آئے لیکن موصوف کے اعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کو ملک کی سلامتی اور یک جہتی سے کوئی سرو کار نہیں وہ ہر قیمت پر دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتے ہیں جو موجودہ صورت حال میں نا ممکن نظر آتا ہے بلکہ کسی بھی وقت مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوسکتی ہے ، اس لیے کہ نئی قومی حکومت بننے کے قوی امکانات نظرآرہے ہیں۔