|

وقتِ اشاعت :   November 7 – 2017

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ یمن میں باغیوں کو میزائل فراہم کر کے ’براہ راست جارحانہ فوجی کارروائی‘ میں ملوث ہونے کا مرتکب ہو رہا ہے۔

سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ایران کی جانب سے حوثی باغیوں کو میزائل کی فراہمی کو سعودی عرب ’اپنے خلاف جنگ تصور کر سکتا ہے۔‘

یاد رہے کہ سنیچر کے روز ایک میزائل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے قریب مار گرایا گیا تھا۔

ایران اس الزام سے انکار کرتا آ رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کو اسلحہ دے رہا ہے۔

پیر کو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کو سعودی عرب کی ’جارحانہ جنگی کارروائیوں‘ اور ’علاقائی سطح پر دھونس‘ کی حکمت عملی سے خطرہ ہے۔

منگل کو سعودی نیوز ایجنسی کا کہنا تھا کہ شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیر خارجہ نے ’حوثیوں کی طرف سے بیلسٹک میزائل چلائے جانے پر مذمت کا اظہار کیا‘ اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ’برطانیہ سعودی عرب کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے‘ میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

سعودی نیوز ایجنسی کا مزید کہنا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے بورس جانسن کو بتایا کہ ’ایران کی جانب سے اپنے حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کو میزائلوں کی فراہمی کو سعودی عرب ایرانی حکومت کی جانب سے اپنے خلاف جنگ تصور کرے گا۔‘

اس سے قبل پیر کو سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے امریکی ٹی وی چینل سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاض پر میزائل داغنے میں ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ بھی ملوث تھی۔

وزیر خارجہ کے بقول ’یہ ایک ایرانی میزائل تھا جو حزب اللہ نے یمن کے اُس علاقے سے داغا تھا جو حوثیوں کے قبضے میں ہے۔‘

عادل الجبیر کا مزید کہنا تھا کہ یہ میزائل اُسی قسم کا تھا جو جولائی میں داغا گیا تھا اور اسے مکّہ کے پاس گرا دیا گیا تھا۔ وہ میزائل بھی ایران کا بنا ہوا تھا، جس کے حصے الگ کر کے اسے یمن سمگل کیا گیا جہاں اسے ’ایران کے پاسداران انقلاب اور حزب اللہ سے منسلک‘ کارندوں نے دوبارہ جوڑا تھا۔

سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں سعودی وزیر خارجہ نے خبرادار کیا تھا کہ ’خطے میں ایران کی دخل اندازی پڑوسی ممالک کی سکیورٹی کے لیے نقصاندہ ہے اور اس کے اثرات بین الاقوامی امن اور سکیورٹی پر بھی پڑ سکتے ہیں۔‘

عادل الجبیر کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف نے اس انٹرویو کے جواب میں کئی مرتبہ ٹویٹ کیا۔ ایک ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’سعودی عرب خود یمن پر بمباری کر کے اس کا ملیا میٹ کر رہا ہے، ننھے بچوں سمیت ہزاروں معصوم لوگوں کو ہلاک کر رہا ہے، وہاں ہیضہ اور قحط پھیلا رہا ہے، لیکن موردِ الزام ایران کو ٹھہراتا ہے۔‘

اس سے قبل ایران کی وزارت خارجہ نے بھی سعودی الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ میزائل داغنا حوثیوں کا ’آزادانہ فعل‘ تھا جو انھیں نے سعودی اتحاد کی جانب سے چڑھائی کے جواب میں کیا، اور ایران کا اس واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔