|

وقتِ اشاعت :   November 11 – 2017

برسلز :  امریکی وزیر دفاع جیمزمیٹس نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لئے نیٹورکن ممالک اور بھارت کیساتھ ملکر کام کرنے کے خواہاں ہیں ۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برسلز میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی نئی جنوبی ایشیا حکمت عملی علاقائی فورسز کو دوبارہ متحد اور منظم کرنے پر مبنی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگرد کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے امریکہ نے ہمیشہ پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے اور ہم بھارت کیساتھ اس آغاز کے خواہاں ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گا خطے کا ہر ملک ایک ہی میوزک شیٹ پر کام کو یقینی بنائے جسکا مطلب دہشتگردوں کو کئی بھی محفوظ ٹھکانہ نہ ملنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اولین ذمہ داری پاکستان کی ہے کہ وہ افغانستان سرحد سیملحقہ علاقوں میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو مکمل طور پر ختم کردے انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ نیٹو کے تمام رکن ممالک پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے مکمل خاتمے کے لئے ملکر کام کریں ۔

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اکیلے امریکہ کی کوشش سے کچھ نہیں وہوسکتا انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لئے نیٹو ممالک کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مفاہمت نیٹو کی فوجی مہم کا سیاسی مقصد اور ہماری جامع رسائی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مفاہمت افغان حکومت کیساتھ طالبان کے لئے مذاکراتی دورازہ کھولے گی اور پھر اسکا انحصار خود طالبان پر ہوگا کہ وہ مذاکراتی راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر تشدد کا دریں اثناء پاکستان وافغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ایلس ویلز نے کہاہے کہ پاکستان کو معلوم ہے کہ امریکہ افغانستان سے نہیں جا رہا اور ہم طالبان کو شکست دینے کے لیے پْر عزم ہیں۔

نتیجتاً بہت سے اندازے بدل جائیں گے،امریکی نشریاتی ادارے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے پاکستان وافغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ایلس ویلز نے کہا کہ پاکستان کو معلوم ہے کہ امریکہ افغانستان سے نہیں جا رہا اور ہم طالبان کو شکست دینے کے لیے پْر عزم ہیں، نتیجتاً بہت سے اندازے بدل جائیں گے۔

ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے افغانستان میں اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے جائز اہداف ہیں اور ہمارا موقف ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ مذاکرات ہیں اور طالبان پر دباؤ ڈالنا کہ مذاکرات کی میز پر آنے کا وقت آگیا ہے۔

نمائندہ خصوصی، ایلس ویلز نے مزید کہا کہ دہشت گرد گروہوں کے ذریعے آج کی دنیا میں دفاعی اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے درحقیقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے گروہوں کے باعث پاکستان کا اعتدال پسند معاشرہ اور مذہبی رواداری متاثر ہوئی ہے پاکستان میں بطور معاشرہ تبدیل ہو رہا ہے ۔

ان میں سے کچھ منفی تبدیلیوں پر کچھ حلقوں میں تحفظات ہیں،امریکی نمائندہ خصوصی نے ایک بار پھر امریکی مؤقف دہرایا کہ دہشت گرد گروہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، چاہے وہ حقانی نیٹ ورک ہو یا جیش محمد یا لشکر طیبہ ہوں۔