|

وقتِ اشاعت :   November 15 – 2017

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں اخبارات کے اشتہارات پر پابندی لگائے جانے کے حوالے سے حکومت اور اخبار مالکان کے درمیان تنازع ایک بار پھر سامنے آیا ہے۔

اخباری مالکان کے مطابق اشتہارات پر پابندی لگانا اخباروں کا گلہ گھوٹنے کے مترادف ہے جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ اس نے اشتہاروں پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی ہے۔

اخبار مالکان کے مطابق حکومت نے بلوچستان سے شائع ہونے والے اردو کے تین اخباروں کے اشتہارات بند کر دیے ہیں۔ جن اخبارات کے اشتہارات مبینہ طور پر بند ہوئے ہیں ان میں روزنامہ انتخاب، روزنامہ بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی شامل ہیں۔

بلوچستان میں گذشتہ چند ماہ کے دوران اخباری مالکان اور حکومت کے درمیان اخباروں پر لگائی گئی پابندی کے حوالے سے کئی مذاکرات ہوئے جبکہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر مظاہرے بھی ریکارڈ کروائے گئے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوۓ روزنامہ انتخاب کے مدیر اور پبلشر انور ساجدی نے بی بی سی کی نامہ نگار سحر بلوچ کو بتایا کہ روزنامہ انتخاب اور روزنامہ آزادی کا شمار بلوچستان کے بڑے اخبارات میں کیا جاتا ہےـ

انھوں نے کہا کہ ’تین ہفتے سے صوبائی حکومت کے محکمئہ تعلقاتِ عامہ نے یہ اشتہارات کوئی وجہ بتائے بغیر بند کر دیے ہیں۔‘

انور ساجدی کے بقول بلوچستان سے شائع ہونے والے اخباروں کو خاص طور سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

’ماضی میں بھی بلوچستان سے اخباروں کی اشاعت کے حوالے سے مسائل پیدا کیے جاتے رہے تاہم باقی علاقوں میں ایسی روایت نہیں تھی۔ بلوچستان میں اس وقت دو فریق ہیں جن میں ایک طرف حکومتی ادارے ہیں اور دوسری جانب بلوچ مسلح تنظیمیں اور دونوں اخبارات کا قتل کرنے پر متفق ہیں۔‘

’ایک نے اخبارات کی ترسیل پر پابندی لگا دی ہے جبکہ دوسرے نے اشتہارات پر پابندی لگائی ہے جو بلوچستان کی صحافت پر دو طرفہ قاتلانہ حملہ ہے۔‘

انور ساجدی کا کہنا ہے کہ حال ہی میں اشتہارات پر لگائی جانے والی پابندی کا مقصد اخباروں کی مالی ساخت کو نقصان پہنچانا ہے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوۓ حکومتِ بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ حکومت اور مسلح تنظیموں کی گنتی ایک ساتھ کی جا رہی ہے

انھوں نے کہا کہ اشتہاروں پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی گئی۔

’اشتہارات کی ایک پالیسی ہوتی ہے۔ اخباروں کی گردش کو لے کر تشخیص کی جاتی ہے اور اس تشخیص کی بنیاد پر اشتہار دیا جاتا ہے۔ حکومت کسی بھی اخبار کے قارئین کی تعداد اگر کم ہو تو اس کو اشتہار نہ دینے کا پورا حق رکھتی ہے۔‘

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’اگر اخبارات حکومتی حق کو اپنے خلاف امتیازی سلوک سمجھتے ہیں تو یہ ان کا استحقاق ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔‘

پچھلے چند ماہ سے بلوچستان میں اخباروں کی اشاعت کے حوالے سے تنازعات سامنے آ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے صحافیوں کو بیک وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں، طالبان، بلوچ مسلح تنظیموں اور حکومت سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہےـ ان عناصر کا صحافیوں پر الزام ہے کہ یہ ان کا نقطئہ نظر پیش نہیں کرتے۔

بلوچستان کے سابق وزیرِ اعلٰی اور نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالمالک بلوچ نے حال ہی میں تربت، خضدار اور گوادر میں اخباروں کی بندش اور بیشتر پریس کلبوں کے بند ہونے پراظہارِ تشویش کیا ہے۔

جنوبی بلوچستان میں 25 اکتوبر سے اخبارات کی ترسیل و فروخت پر بلوچ مسلح تنظیموں نے پابندی عائد کی ہے۔ اس کا مقصد مسلح تنظیموں نے اپنے خلاف ہونے والی ’یک طرفہ کوریج‘ کو ٹھرایا ہےـ

اس پابندی کے بعد بہت سے اخبار فروشوں اور مالکان کو دھمکیاں بھی دی گئیں جس کے بعد جنوبی بلوچستان میں کئی پریس کلب زبردستی بند کروائے گئے۔

کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز نے بلوچستان میں اخبارات کی ترسیل پر پابندی کو جمہوری اقدار اور آزادیِ راۓ کی خلاف ورزی کہا ہے۔ کونسل کے مطابق اس وقت صرف بلوچستان کے پشتون علاقوں میں اخبارات کی ترسیل و فروخت جاری ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو اور سحر بلوچ