|

وقتِ اشاعت :   October 26 – 2017

صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اضلاع اور ڈویژنوں کی از سر نو حد بندکی جائے گی ۔ مجموعی طورپر یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اضلاع کی از سرنوحد بندی کی جائے گی جس کا شاید مقصد انتظامیہ کی کارکردگی کو بڑھانا اوراس کو زیادہ موثر بنانا ہے ۔

اورشاید بلوچستان میں چند ایک اضلاع کا قیام بھی مقصود ہو ۔ لیکن اس کی مخالفت اس وجہ سے ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی خواہشات کے مطابق اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ان درجن بھر سب تحصیلوں کو پہلے اضلاع کا درجہ دیا گیا ۔

اس طرح سے سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالا جارہا ہے یعنی ان درجن بھر سابق سب تحصیلوں پر سالانہ تین سے چار ارب روپے خرچ ہورہے ہیں۔ بیس سال قبل ایک علاقے کو ضلع کا درجہ دیا گیا مگر آج تک حکومت وہ تمام ضروری دفاتر ‘ اسپتال ‘ اسکول ‘ تعلیمی ادارے وہاں قائم نہیں کر سکی ۔

نائب تحصیل دار کے گھر کو ڈپٹی کمشنر کا گھر بنا دیا گیا ، سب تحصیل آفس کو ڈپٹی کمشنر کا دفتر بنا دیا گیا اس طرح کے غلط فیصلوں کی وجہ سے انتظامی اخراجات پر کم سے کم پچاس ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ۔ ان میں سے اکثر سابق سب تحصیلوں کی آبادی چند ہزار تھی جب ان کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ 

جمعیت اور پختونخوا کے پریشر گروپ نے حکومت بلوچستان پر دباؤ ڈالا کہ پشتون علاقوں میں اضلاع کی تعداد کو بلوچ سرزمین کے برابر لایا جائے چنانچہ ان کے رہنماؤں کے دھونس اور دباؤ کے تحت چند ہزار افراد پر مشتمل سب تحصیلوں کو ضلع کا درجہ ددیا گیا ۔

حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے تمام ا فغان علاقوں کا رقبہ سابق خاران کے رقبے سے کم ہے اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہوئے صوبائی حکومتوں نے وہاں تقریباً سات نئے اضلاع صر ف اور صرف سیاسی دباؤ کے تحت بنائے ۔ جبکہ سابق وزیراعظم نے صحبت پور کو ضلع کا درجہ بہ حیثیت وزیراعظم کے دیا تھا جو ان کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ 

بلوچستان ایک وسیع و عریض خطہ ہے یہاں پر بڑ ے بڑے انتظامی یونٹ ہی ہونے چائییں، سب تحصیل کو ضلع کا درجہ دینے کا واحد مقصد علاقے کی سیاسی لیڈر کی واہ واہ کرانی ہے لیکن اس کا منفی اثر یہ ہوگا کہ بلوچستان جیسے غریب ترین صوبہ کے انتظامی اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا۔ 

ان اضلاع کا دورہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ڈپٹی کمشنرصاحب کی رٹ لیویز کے چار سپاہیوں تک محدود ہے اکثر ان چھوٹے اضلاع کے ڈپٹی کمشنر صاحبان کوئٹہ میں ہوتے ہیں اپنے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں نہیں جاتے ۔ قانونی طورپر وہ ڈیوٹی سے غیر رہتے ہیں لہذا ان تمام ڈپٹی کمشنرز کو قانونی طورپرغیر حاضر قرار دے کر ان کے خلاف محکمانہ کاروائی کرنا چائیے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ رخشان علاقے کے اراکین اسمبلی نے ایک قرار داد پیش کی کہ خاران ‘ نوشکی ‘ چاغی اور واشک پر مشتمل نیا ڈویژن بنایاجائے جس کا ہیڈ کوارٹر نوشکی ہو یہ ایک اچھی تجویز تھی لیکن اس تجویز کوپختونخوا کے لیڈر رحیم زیارتوال نے ویٹو کردیا ۔ 

یہ حکومت اور حکومتی پارٹی کا ایک امتیازی سلوک ہے کہ بلوچ علاقے میں نیا ڈویژن نہ بنایاجائے جبکہ پشتون علاقے میں سات سب تحصیلوں کو اضلاع کا درجہ سیاسی بنیادوں پر دیا گیا جبکہ ہر تحصیل کی آبادی چند ہزار تھی ۔

جب اضلاع اور ڈیویژنز کی دوبارہ حد بندی ہو تو رخشان کا انتظامی ڈویژن ضرور قائم کیاجائے اور دیگر تمام چھوٹے چھوٹے اضلاع کوختم کیاجائے جنھیں سیاسی دباؤ کے تحت بنایا گیا تھالیکن حقیقت میں ان کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
نئی حد بندیوں کا بنیادی مقصد یہ ہو کہ بلوچستان کے انتظامی اخراجات کم سے کم ہوں تاکہ زیادہ وسائل ترقی پر خرچ کیے جاسکیں ۔ بنیادی طورپر حکومتی لیڈروں کی توجہ زیادہ سے زیادہ غیر ترقیاتی اخراجات پر ہے ۔ 

انہوں نے کبھی اس بات پر توجہ نہیں دی کہ صوبے کی آمدنی میں کس طرح اضافہ کیاجائے اورزیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرکے معاشی ترقیاتی اخراجات کو پورے کیے جائیں ۔