|

وقتِ اشاعت :   October 27 – 2017

گزشتہ ستر سالوں سے سریاب کے مکین بنیادی انسانی سہولیات سے محروم رکھے گئے ہیں اور ابھی تک حکومت نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے کہ صوبائی دارالحکومت کی سب سے بڑی کچھی آبادی کو شہری سہولیات فراہم کی جائیں گی البتہ وزیراعلیٰ نے نیشنل پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ چھ ارب روپے کے ایک منصوبے سے سریاب کو شہری سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔

غالباً یہ صوبائی پروجیکٹ ہوگا جس کے اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔ اکثر یہ ہوتاآیا ہے کہ صوبائی حکومت کی ترقیاتی بجٹ کو زیادہ تر ایم پی اے حضرات اپنی ذاتی اسکیموں کے لیے جاتے ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ یہ رقم عوامی فلاح و بہبود پر کوئی خرچ ہوئی لیکن عوام الناس کو دکھائی نہیں دیتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ 76ارب کی ساری رقم معاشی ترقی اور شہری سہولیات پر لگائی جائے ۔

1980ء کی دہائی میں ایک ایم پی اے جو اپنے قبیلے کا نواب تھا اس کو پچاس لاکھ روپے ایم پی اے فنڈسے دئیے گئے، اس نے رقم حاصل کرکے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈال دئیے اور جب اخبار نویسوں نے پوچھا کہ یہ تو ترقیاتی فنڈ ہے اور آپ نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈالے ہیں یہ تو قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ کرپشن ہے تو نواب صاحب کی طرف سے جواب آیا کہ یہ رقم مجھے دی گئی ہے ترقیاتی کام کرنا حکومت کا کام ہے ، میر ا نہیں ۔

روز اول سے ایم پی اے حضرات اس کو ذاتی فنڈ قرار دیتے آرہے ہیں ۔ گزشتہ 35سالوں میں مکمل ہونے والی صوبائی حکومت کسی ایک اسکیم کی نشاندہی کرے کہ یہ ایم پی اے فنڈ سے تعمیر ہوا ہے ، اس سے اتنے لوگوں کو روزگار ملا ہے یا صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے ۔اس میں دو رائے نہیں کہ یہ سارے وسائل ضائع ہوئے خصوصاً گزشتہ 35سالوں سے جب سے جنرل ضیاء الحق نے ان ایم پی اے حضرات کے لیے ترقیاتی فنڈ مختص کیے ہیں۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر اس نامور اور طاقتور ایم پی اے کے خلاف تحقیقات کی جائے جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں اربوں روپے کے فنڈ زحاصل کیے اور اسے عوامی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کیے اور اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں ڈال دئیے ۔ 

یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان الزامات کی تحقیقات کرائے اور اگرکوئی مجرم پایا گیا تو اس کواس کی سزا دی جائے ۔ ویسے بلوچستان کی حکومت اور اس کی نوکر شاہی کی کرپشن کی کہانیاں مشہور ہیں صرف ایک سرکاری افسر کے گھر سے 73کروڑ روپے بر آمد ہوئے جبکہ ایک سابق فوجی افسرکے گھر میں ایک چھاپے کے دوران 13ارب روپے برآمد ہوئے ، اس کو قوانین کے مطابق سزائیں دی گئیں۔ 

اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف سریاب بلکہ پورے صوبے میں شہری سہولیات فراہم کرنے کے لئے منصوبے بنائے جائیں، ہر بڑے شہر کو شہری سہولیات فراہم کی جائیں ۔ مقامی حکومتیں اور میونسپل ادارے ملازمین میں صرف تنخواہیں بانٹ رہے ہیں، صحت اور صفائی کے لیے کوئی رقم نہیں بچتی ۔بنیادی شہری سہولیات کی عدم دستیابی سے پورا بلوچستان ایک وسیع و عریض کچھی آبادی کا منظر پیش کررہا ہے ۔ 

اس کی ابتداء سریاب سے کی جائے تاکہ یہاں کی دس لاکھ پر مشتمل کچھی آبادی کو جدید دور کی سہولیات فراہم ہوسکیں اور سریاب بھی شہر کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے ہم پلہ ہوسکے ۔

اسی مالی سال کے دوران خضدار اور تربت میں بھی وسیع پیمانے پر شہری سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ بلوچستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر میں بھی کچھی آبادی کا تاثر ختم ہوجائے ۔ اور بلوچستان کے یہ تینوں بڑے شہر ترقی یافتہ نہیں تو صاف ستھرے ضروربن جائیں ۔