|

وقتِ اشاعت :   October 29 – 2017

پشین کے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے صدر نے بالکل صحیح موقف اپنایا کہ پنجاب کی بالادستی کو کم کرنے کے لئے ایک متحدہ اور مضبوط پختون صوبے کی ضرورت ہے اور انہوں نے اپنا یہ مطالبہ بھی دہرایا کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور وفاقی کابینہ کا یہ فیصلہ ہے اس سے پہلے حکومتی کمیشن نے بھی اس کی سفارش کی تھی کہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیاجائے ۔

جب یہ عمل جاری تھا تو اچانک وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ جو کمیشن کے ایک اہم ترین رکن ہیں، نے پختون نمائندوں کو بتایا اور اس کا بر ملا اعلان بھی کیا کہ مقتدرہ اس نضمام کی مخالف ہے لہذا یہ نہیں ہوگا۔ اسکے بعد وفاقی حکومت اور پوری کابینہ کی رائے بدل گئی کہ فاٹا کو وسیع تر کے پی کے کا حصہ نہیں بنایا جائے گایا دوسرے الفاظ میں اس کو پاکستان کا حصہ نہیں بنایا جائے گااور وہاں کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق بحال نہیں کیے جائیں گے۔ 

جب مقتدرہ کا نقطہ نظر تبدیل ہوا تو مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے رویہ میں بھی تبدیلی آئی۔ پشاور کے ایک جلسہ میں مولانا فضل الرحمان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا میں ریفرنڈم کرایاجائے اور عوام کی اس بار ے میں رائے معلوم کی جائے ۔ بہ حیثیت ایک ہوشیار سیاستدان کے مولانا فضل الرحمان نے فاٹا انضمام کے معاملے میں کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی ۔ 

ویسے دونوں پشتون رہنما اس انضمام کی مخالفت کررہے ہیں اور مقتدرہ کے ساتھ ہم آواز ہیں مولانا فضل الرہمان شاید اس وجہ سے فاٹا انضمام کی مخالفت کررہے ہیں کہ اس سے ان کی پارٹی کی اہمیت کم ہوجائے گی ان کی پارٹی کا فاٹا میں اثر ورسوخ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اگر اتنی بڑی آبادی کے پی کے میں شامل ہوجائے گی تو سیاسی طورپر مولانا فضل الرحمان خسارے میں رہیں گے اور پشتون قوم پرست اس کا زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔ 

اس طرح محمود خان اچکزئی کی سیاست کوئٹہ کے ارد گرد گھومتی ہے اس لیے وہ بھی کسی قیمت پر کوئٹہ سے الگ نہیں ہونا چاہتے شاید بڑا پختون صوبہ بننے کی صورت میں ان کی حیثیت ‘اثر ورسوخ کم ہوجائے گی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنا موقف افغانستان کے قریب تر رکھنا چاہتے ہیں ۔

تاہم اسفندیار ولی کا یہ بیان اہم ہے کہ بڑے صوبے میں بلوچستان کے پختون علاقے خصوصاً افغانستان کے مفتوحہ علاقے بھی شامل ہوں گے اس طرح سے کے پی کے ایک متحدہ پختون صوبہ ہوگا جو پنجاب کی سیاسی اور معاشی بالا دستی کا مقابلہ کرے گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کی بالا دستی ختم کرنے کیلئے سندھ اور بلوچستان کے عوام بھی ان کا ساتھ دیں گے انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہCPEC چین ‘ پاکستان راہداری نہیں بلکہ چین ‘ پنجاب راہداری ہے ۔ 

سارے ترقیاتی منصوبے پنجاب کے لئے ہیں اس لیے اس ناانصافی کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنایاجائے ۔ بہر حال یہ چند ایک اہم سیاسی رہنماؤں کی رائے ہے ۔ ہم نے ہمیشہ صوبوں کی از سر نو حد بندی کا مطالبہ کیا ہے اور کہاہے کہ صوبوں کی ازسر نو تشکیل قوم ‘ زبان اور ثقافت کی بنیاد پر ہو ۔

بلوچستان کے پشتون علاقوں کو کے پی کے میں ضم کیاجائے اکثر چند سیاسی رہنماء اس کی مخالفت کریں گے تو عارضی طورپر ان علاقوں پر مشتمل فاٹا کی ایک نئی ایجنسی قائم کی جائے اوروہ مزید کسی فیصلے تک فاٹا کا حصہ رہیں ۔ 

اس کے بعد ڈیرہ غازی خان ‘ ڈیرہ اسماعیل خان ‘ جیکب آباد ‘ کندکوٹ اور کشمور کو بلوچستان میں شامل کیاجائے کیونکہ یہ بلوچستان کے تاریخی حصے ہیں اور ان کو بلوچستان سے کاٹ کر سندھ اور پنجاب میں شامل کیا گیا لہذا ان کو دوبارہ بلوچستان میں شامل کیاجائے۔ 

اسکے علاوہ گلگت بلتستان ‘ سرائیکی صوبہ اور ہزارہ صوبہ یا پوٹھوہار صوبہ کی تشکیل قومی بنیادپر کی جائے ۔ اس طرح سے ملک میں قومی صوبے قائم کیے جائیں اورپورے ملک پرمسلط ایک صوبے کی بالادستی ختم کی جائے ۔صوبوں کی تشکیل نو کے بعد پارلیمان میں تمام صوبوں کی برابر نمائندگی کو یقینی بنایا جائے کیونکہ موجودہ سیاسی نظام ناکام ہوگیا ہے جہاں ہر طرف پنجاب کی بالادستی ہے ۔