عدالت تلور کو بھی انصاف نہ دے سکا۔۔

| وقتِ اشاعت :  


کیا انصاف اندھا ہے؟ یا انصاف کسی اڑتی چڑیا کا نام ہے جو فضاؤں میں آزاد گھوم رہی ہے اور جسے زمینی انسان زندہ پکڑنے کے در پے ہے یا انصاف کسی خاص طبقے کی دسترس اور قبضے میں ہے، چند لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو کسی اور کو ملتا نہیں۔



سِی پیک ا ور گوادر کے تعلیمی چیلنجز۔ خدشات اور امکانات

| وقتِ اشاعت :  


چھیالیس 46 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے بننے والی چین پاکستان اقتصادی راہ داری (CPEC) کو حکومتِ وقت نہ صرف پاکستان بلکہ خطّے کے لیے ایک گیم چینجر قرار دے رہی ہے وفاقی وزیرمنصوبہ بندی جناب احسن اقبال کے مطابق چائنا پاکستان اقتصادی راہ داری محض ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ متعدد پروجیکٹس کا مجموعہ ہے جس میں پینتیس 35 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں اور 11 ارب ڈالر اقتصادی راہ داری اور صنعتی زونز پر خرچ کئیے جائینگے



میرے شہر کا حسن گُہنا رہا ہے۔۔۔

| وقتِ اشاعت :  


شہر کیوں اجڑتے ہیں۔۔۔؟اگرچہ اس سوال کا جواب آثارِ قدیمہ کے ماہرین سے ہی لیا جانا چاہیے،کہ وہی اس کی صحیح تشریح و توضیح کر سکتے ہیں۔ مگر چوں کہ یہ سوال میرے شہر کے معاملا ت اور مسائل سے میل کھاتا ہے۔ اس لیے اس کا جواب تلاش کرنا ہمارا فرض بنتاہے ۔



نو اب ثنا ء اللہ زہر ی کا دورہ گوادر

| وقتِ اشاعت :  


*بلو چستان کے دیگر علا قوں کی طر ح گو ادر بھی طو یل عر صے سے پسما ند گی اور محر ومیوں کا شکا ر چلا آرہا ہے ما ہی گیری اور علا قے میں بود با ش کیلئے لو گ زند گی کی بنیا دی سہولتوں،جد ید تجارتی منڈی کے دیر نیہ مطالبے ہیں ۔صوبا ئی حکومت کی کو ششوں سے گوادر رپو رٹ کے فعال ہو نے



آاقتصادی راہدری منصوبہ ۔۔۔

| وقتِ اشاعت :  


ہم کو معلوم ہیں حالات بُرے ہیں لیکن
قافلہ چلتا رہے گا یوں ہی چلنے والا
اک ذرا اپنے پرائے کا بھرم کھل جائے
چند لمحوں میں ہے اب وقت بدلنے والا
حکومتِ پاکستان ملک میں چین کے تعاون سے اربوں ڈالرز مالیت کے اقتصادی راہدری کے منصوبے پر تیزی سے آگے بڑھنا چاہ رہی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دشواریاں آرہی ہیں گذشتہ سال چین اور پاکستان نے اقتصادی راہداری منصوبے کی بنیاد رکھی جس کے تحت 46 ارب ڈالر کی لاگت سے چین کو بذریعہ سڑک اور ٹرین کے گوادر کی بندرگاہ سے ملایا جائے گا



گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری پر پشتونوں کا احتجاج ، چہ منہ دارو

| وقتِ اشاعت :  


کوئٹہ: پاک چین اقتصادی راہداری کو متنازعہ بنانے کی باتیں‘70ء کی دہائی پر حالات کو دھکیلنا‘چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتی‘ مغربی روٹ پر کام جلد شروع کرنا‘اقتصادی راہداری کو کالاباغ ڈیم کی طرح متنازعہ نہ بنانا‘ یہ وہ باتیں ہیں جو آج خاص کر پشتون سیاسی ومذہبی لیڈران کررہے ہیں‘ پاک چین اقتصادی راہداری پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی وجہ صرف گوادر کی سرزمین ہے‘ جو آج پانی سے بھی محروم ہے‘



بلوچستان کا دارلحکومت کوئٹہ

| وقتِ اشاعت :  


خوبصورت پہاڑوں کے درمیاں واقع وادی کوئٹہ پچاس ہزار کی آبادی کے لیے مختص کیا گیا تھا جس کی سڑکیں ،مکانات اُسی حساب سے ترتیب دئیے گئے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ آبادی کے اضافے کے باعث یہ وادی انگنت مسائل کا شکار ہوتی چلی گئی جس میں ٹریفک ،چھوٹی سڑکیں ،گیس، پانی کی قلت جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔
سنہ 1935ء کے زلزلے کے پیشِ نظر کوئٹہ شہر میں بلڈنگ کوڈ ایکٹ متعارف کیا گیا جس کے تحت 30 فٹ سے بلند عمارت قائم کرنا قانونی جرم ہے بڑھتی آبادی کے باعث ملک کے دیگر شہروں کی طرح کوئٹہ شہر میں بھی فلیٹ سسٹم عروج پا رہا ہے جو کہ زلزلہ زون کی حیثیت سے کوئٹہ شہر کے لیے کسی نیک شگون کی علامت نہیں تاہم



غیرت کیا ہے ؟

| وقتِ اشاعت :  


گوکہ میں علم معاشرت کا کوئی ماہر نہیں لیکن میرا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں مجھے بلواسطہ یا بلا واسطہ کئی ایسے معاشرتی اصطلاحات کا سامنا رہتا ہے جو میری انفرادی و اجتماعی زندگی, میری نفسیات اور میرے رشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اصطلاحات کے اس سمندر میں ایک ایسا اصطلاح جو گائے بگائے میری نفیساتی تعاقب میں لگا رہتا ہے اس کا نام ہے ’’ غیرت‘‘ ۔ درحقیقت یہ ایک ایسا عام یا غلط العام اصطلاح ہے جس کا استعمال بڑی دیدہ دلیری ‘ اشتیاق اور پرتپاک انداز میں اس معاشرے کا عام و خاص کرتا ہے ۔ بد قسمتی سے اس اصطلاح میں ایندھن کی مانند آگ لگانے کی صلاحیت موجود ہے جو کسی انسان کی جسمانی و کردار کے قتل سے لے کر پوری کی پوری بستیوں کو خاکستر کرنے کی صلاحیت اپنے اندر سموئے رکھتی ہے ۔ اس اصطلاح کی مختلف اشکال انفرادی غیرت‘ خاندانی غیرت‘ قبائلی غیرت ‘ دینی و قومی غیرت ہمارے گردو بیش میں رقص بسمل کرتے نظر آتے ہیں



سندھ وفاق محاز آرائی ۔۔۔۔!!

| وقتِ اشاعت :  


سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان کشیدگی اُس وقت سامنے آئی جب ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر کے سامنے سے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا اور قومی احتساب بیورو کی ترجمان نے ان کی گرفتاری سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا رینجرز نے ڈاکٹر عاصم کو چوبیس گھنٹے کے بعد انسداد دہشت گردی کی علامت کے جج سلیم رضا بلوچ کے سامنے پیش کیا اور آگاہی دی تھی کہ انہیں روز کیلئے حراست میں رکھاگیا ہے اس تحریری بیان میں کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا