پنجرہ پل

| وقتِ اشاعت :  


پنجرہ پل وادی بولان کے بیچ واقع ہے۔ وادی بولان اور گرد نواح میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وقفے وقفے سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور سیلابی صورتحال نے سندھ بلوچستان قومی شاہراہ NA 65 کوبولان پنجرہ پل کے مقام پر راستہ مکمل بندکردیا ہے۔ پنجرہ پل زیر آب آنے کے بعد ہر قسم کی ٹریفک رک گئی ہے۔کوئٹہ سے پنجاب اور سندھ کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ ہزاروں گاڑیاں اور مسافر بولان میں مختلف مقامات پر محصور ہو کر گئے ہیں۔ کسی زمانے میں انگریزوں نے یہ پل بنایا تھا جو پنجرہ پل کے نام سے مشہور ہوا۔غالباً 1985 ء میں ایک زوردار سیلاب آیا جس کی وجہ سے یہ لوہے کا پل ٹوٹ گیا تھا اور پھر اس وقت یہاں سے تقریباً دس فٹ اوپر کرکے سیمنٹ سریا کے لمبے بلاکس سے مقامی سطح پرپل تعمیر کیا گیا۔ پل کے درمیان میں ایک گول پلر دیا گیا تھا، جس پر پہ پل کھڑا تھا۔



معاشرتی خرابیوں کے نظام تعلیم پر اثرات

| وقتِ اشاعت :  


پچھلے کچھ ایام سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا واقع معاشرے میں ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کوئی ایسا شخص نہیں جسے اس واقعہ کا علم نہ ہو۔ اب تو یہ واقعہ بین الاقوامی سطح پر بھی خبروں کی گردش میں ہے۔ اس واقعہ کے مطابق یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفسر، ڈائریکٹر فنانس، پروفیسرز اور کچھ طلباء و طالبات کا نام آیا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے اندر منشیات کا کام کرتے تھے اور ان کے پاس سے تقریباً 5500 غیر اخلاقی ویڈیوز بھی موصول ہوئی ہیں۔ اسی بنیاد پر پورے معاشرے میں ایک گو مگو کی کیفیت ہے۔



شعبدہ باز سیاستدان اور بلوچستان کے عوام

| وقتِ اشاعت :  


ترقی یافتہ ممالک میں بارشیں باعث رحمت اور زراعت کی ترقی کیلئے تریاق ثابت ہوتیں ہیں لیکن یہاں بلوچستان میں معمولی بارش بھی رحمت کی بجائے زحمت یا یوں کہا جائے کہ عذاب بن کر عوام پر نازل ہوتی ہے جہاں موثر پلاننگ کا فقدان ہو اور جزا وسزا کا نام تک ہی نہ ہو جہاں عوام کو کچھ بھی نہ سمجھا جاتا ہوں وہاں اس طرح کی ناانصافی اور ظلم و ستم روز کا معمول بن جاتا ہے۔



 ریسرچ فیلو بلوچستان تِھنک ٹینک نیٹ ورک، کوئٹہ

| وقتِ اشاعت :  


2017 کی مردم شماری کے مطابق تقریباً ساڑھے تین کروڑ پاکستانی، کل آبادی کا تقریباً 18 فیصد، پشتون ہیں۔ پشتون ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی، عدلیہ، فوج، سیاست اور نجی اداروں کے مختلف شعبوں میں کافی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔



مولانا ابو الکلام آزاد سے مولانا تک، تاریخ اپنے کو دہراتی ہے

| وقتِ اشاعت :  


نظریاتی ہم آہنگی میں تنگ دامنی ہر گز نہیں ہوتی، اونچائی آسمانوں کو چھوتی ہے، وسعت چار دانگ عالم سے وسیع تر اورگہرائی پاتال کی حدوں تک، جب رشتہ اس قدر شاندار ہو تو جغرافیائی تبدیلی اس پر ہر گز اثر انداز نہیں ہو سکتی، اس حقیقت کو جہاں دوسرے لوگوں نے خوب تر بیان کیا ہے وہیں پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی سمندر کوکوزہ میں بند کردیا ہے



تاریخ ساز شخصیت، اصول پرست رہنماء شہید نواب غوث بخش رئیسانی

| وقتِ اشاعت :  


27 رمضان المبارک 28 مئی 1987 ء اس دردناک سانحہ کا دن ہے جس دن ملی رہبر تاریخ ساز قومی شخصیت چیف آف سراوان نواب غوث بخش رئیسانی کو شہید کیا گیا جنہوں نے ہمیشہ مظلوم انسانوں کی آزادی ترقی اور خوشحالی چاہی با اصول سیاست دان شہید نواب غوث بخش رئیسانی کی 36 ویں برسی گزشتہ روز انتہائی عقیدت واحترام کیساتھ منائی گئی نواب غوث بخش رئیسانی 1924ء میں بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے کا نک میں نواب سراسد اللہ خان رئیسانی مرحوم کے گھر پیدا ہوئے۔



بارڈر بچاؤ تحریک کیا ہے ؟

| وقتِ اشاعت :  


سوشل میڈیا ایک بہت بڑی دنیا ہے ، میری کوشش رہی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے ساتھ وابستہ رہا جائے ، جب بارڈر بچاؤ تحریک شروع ہوئی تو میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے موثر رابطے کا نظام قائم کیا جو بہت کامیاب رہا ، میں نے اس پلیٹ فارم سے لوگوں کو مخاطب کیا ، بلکہ آپ یہ سمجھ لیں کہ بارڈر بچاؤ تحریک کا ابتدائی مرحلہ سوشل میڈیا پر چلا اور اس بیانیے کو ہزاروں لوگوں ، نوجوانوں اور ہر اس شخص نے سپورٹ کیا جو تبدیلی چاہتا ہے ، جو سماج میں مافیاز کی سرگرمیوں کو اپنی آنے والی نسل کی تباہی سمجھتا ہے۔



جنگل کا قانون رائج ہے 

| وقتِ اشاعت :  


مند تمپ (ڈسٹرکٹ کیچ ) میں مصنوعی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ پورے سال لوڈشیڈنگ کا یہی حال ہوتا ہے لیکن یہاں یہ بات حیران کن ہے کہ ہر سال رمضان کے مہینے میں عوام و ناس کو شدید لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا ہوتاہے ۔ رمضان میں جہاں مسلم ممالک میں عوام… Read more »



سیاسی و معاشی سرگرمیوں پر بندش کا انجام

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں حالات کی خرابی رواں شورش کے سبب ہے جسے اب بیس سال کا عرصہ ہو گیا ہے، طاقت ور حلقوں کے تمام تردعوؤں کے برعکس مختصر خاموشی جنہیں کامیابی سمجھا جاتا ہے اچانک حالات ایسے بگڑ جاتے ہیں جنہیں کنٹرول کرنا مشکل لگنے لگتا ہے، حکومت حالات پر گرفت کے نام پر ہمیشہ ایسے احمقانہ فیصلے کرتی ہے جس کے منفی اثرات پورے سماج پر پڑتے ہیں اور عام لوگ جو شورش میں خود کو درمیانہ طبقہ خیال کرتے ہیں مجبوراً ان اقدامات کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان آواز اٹھانے والوں پر پھر گھیرا تنگ کرنے کی نت نئی ترکیبیں آزمائی جاتی ہیں۔