امراض قلب ، کارڈیک سرجری اور سول سنڈیمن ہسپتال

| وقتِ اشاعت :  


صحت اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور بلاشک جس طرح صحت کسی بھی ریاست کا بہت اہم شعبہ ہے اسی طرح ہر شہری کو صحت کی سہولیات کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔صحت کی اچھی او رمعیاری سہولیات تک رسائی عوام کی اولین ضرورت ہے تاہم بدقسمتی سے بلوچستان میں صحت کے شعبے کی حالت مکمل اطمینان بخش نہیں مختلف النوع مسائل ہیں اور خاص طور پر غریب خاندانوں کو اپنے مریضوں کے علاج کے لیے کافی مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود صحت کے شعبے میں محدود وسائل کے باوجود اچھا اور معیاری کام بھی ہورہا ہے جس کی بین مثال سول ہسپتال کوئٹہ میں امراض قلب کا شعبہ ہے سول ہسپتال کوئٹہ میں کارڈیک سرجری کے کامیاب آپریشن جاری ہیں۔



قومی و طبقاتی سیاست کی پہچان یوسف مستی خان !!

| وقتِ اشاعت :  


یوسف مستی خان 16 جولائی 1948 کو کراچی میں واجہ اکبر مستی خان کے گھر میں پیدا ھوئے۔ ان کا تعلق بلوچوں کے مشہور قبیلے ” گورگیچ” سے تھا۔ اس قبیلے کو کسی زمانے میں بلوچ تاریخ کے دراز قد شخصیت، قومی ہیرو اور نامور بلوچی شاعر ” بالاچ ” کی وجہ سے بہت شہرت اور عروج حاصل رہا۔ بالاچ نہ صرف گورگیچ قبیلے کے سردار تھے بلکہ وہ بلوچ قبائل میں ایک اہم کردار کے بھی حامل تھے۔ بالاچ کے وفات کے بعد اس قبیلے کا شیرازہ بھکر گیا اور اس کے بڑی تعداد میں لوگ افغانستان ہجرت کرگئے اور قندھار کے گرد و نواح میں کرز کے علاقے میں آباد ہوگئے۔ ڈھائی سو سال قبل اس قبیلے کے کچھ لوگ افغانستان سے آکر” قلات ” میں آبادہوئے جہاں سے کچھ لوگ بلوچستان کے علاقے ” سبی ” میں آباد ھوئے جبکہ یوسف مستی خان کا خاندان کراچی میں جاکر آبادہوا۔ ان کا شمار کراچی کے حکمران خاندان میں ہوتاتھا ایک طرف ان کے والد واجہ اکبر مستی خان فشری سے متعلق کاروبار اور فیکٹریوں کے مالک رہے تو دوسری ان کے چچا ستار مستی خان انگریزی حکومت میں خان آف قلات کے سفیر رہے۔ یوسف مستی خان نے ابتدائی تعلیم کراچی اور پھر مری میں حاصل کی۔



بلوچستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ

| وقتِ اشاعت :  


معتبر ذرائع کے مطابق جام کمال خان جلد یا بدیر پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنے والے ہیں۔ اگر وہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو سیاست کے مایہ ناز بادشاہ آصف علی زرداری آنے والے وقت میں کسی بھی طرح جام کمال خان کو دوبارہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب پر فائز کرنے کی جی توڑ کوشش کریں گے۔ ن لیگ کا خیال ہے کہ اگر بلوچستان کے حالات سدھارنے ہیں تو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو دوبارہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی کرسی پر براجمان کرنا پڑے گا۔ معلوم نہیں کہ بلوچستان کے حالات کو لے کر ن لیگ کی نیت کتنی شفاف ہے لیکن شنید میں آیا ہے کہ بڑے میاں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف کو بلوچستان پر خاص توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بڑی ہوشیاری سے جام کمال خان کی سیاسی ساکھ کو ختم کئے جارہا ہے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ حب چوکی کو الگ ضلع بنانے میں عبدالقدوس بزنجو کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ کام انہوں نے ذاتی دلچسپی سے کی ہے چونکہ حب چوکی کو الگ ضلع بنانے سے جام کمال خان اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ جام کمال خان کی سیاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا یہ ایک واحد حل تھا۔ اگر بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ الگ ضلع کی منظوری کے حق میں آیا تو اس اقدام سے تمام تر فائدہ بھوتانی برادرز کو ہوگا۔



وزیراعلیٰ بلوچستان کے ناک نیچے ” جیڈا ” کی دوکانداری

| وقتِ اشاعت :  


پچھلے دو ہفتوں سے گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایک بار پھر اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔خبر یہ ہے کہ گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی(جیڈا) کا آفس ایک بار پھر گوادر سے کراچی جیسے بڑے کاروباری شہر میں کھولا گیا ہے۔ سوشل میڈیا میں جیڈا کراچی آفس کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ آفس کی کس طرح شاہانہ طریقے سے تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ جیڈا آفس کے گوادر سے کراچی منتقل ہونے کی خبر پر ایم ڈی جیڈا نے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کی ہے کہ کراچی میں گوادر انڈسٹریل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا صرف ایک فیسلیٹیشن سینٹر کھولا گیا ہے جس میں صرف ایک معمولی کلرک بیٹھ کر کراچی اور پنجاب کے سرمایہ داروں کے اقساط کو جمع کریگا،حالانکہ ویڈیو میں کانفرنس روم سمیت کمپیوٹر سیکشن بھی دکھائی دے رہی ہے جنہیں انتہائی نفیس طریقے سے سجایا گیا ہے۔



جلدی امراض کے جدید علاج میں ڈاکٹر سارہ عنایت کی خدمات

| وقتِ اشاعت :  


پروفیسر ڈاکٹر سارہ عنایت کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ انہوں نے 2002 میں کوئٹہ سے ایم بی بی ایس کیا اور پھر 2005 میں پوسٹ گریجویشن کے لیے لاہور چلی گئیں۔ شیخ زاہد ہسپتال لاہور سے ایم سی پی ایس کیا اور پھر میو ہسپتال لاہور میں ڈاکٹر سبرینہ کے زیر سایہ میڈیسن اور ڈرمیٹالوجی میں اپنی تربیت شروع کی۔ انہوں نے ڈاکٹر سبرینہ سے نہ صرف ڈرمیٹالوجی بلکہ انسانی ہمدردی کا سبق بھی سیکھا تھا اور پھر وہ کوئٹہ کے لوگوں کی خدمت کے لیے ایم سی پی ایس اور ایف سی پی ایس کی ڈگریاں لے کر واپس کوئٹہ آگئی۔ وہ اپنے خاندان کی پہلی ڈاکٹر تھیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور گئیں۔



جنگ ستمبر اور جذبہ حب الوطنی۔۔۔۔!

| وقتِ اشاعت :  


دنیا کی تاریخ جنگی کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن جنگی کارناموں کے حوالے سے جو تاریخ پاک افواج نے رقم کی ہے اس کی نظیر شاید ہی دنیا میں کہیں ملتی ہو ۔ایسے غیر معمولی واقعات کم ہی پیش آئے ہیں جب آپ ایسے کام کر جائیں کہ دنیا آپ کو رشک کی نگاہ… Read more »



عوام کا مسئلہ

| وقتِ اشاعت :  


  ایک عام پاکستانی کا مسئلہ نا تو عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم کا حکومت میں آنا نہ کسی عام پاکستانی کو حمزہ شہباز کی حکومت جانے کا دکھ ہے اور نہ ہی پرویز الٰہی کی مشروط حکومت کی خوشی ہے۔ کسی عام پاکستانی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ سندھ میں ابھی بھی بھٹو زندہ ہے اور ایم کیوایم مختلف ناموں کے ساتھ کراچی میں سیاست کر رہی ہے ۔ایک عام پاکستانی کو اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ بلوچستان میں کب کون کس پارٹی میں شامل ہوتا ہے اور کونسا نیا چہرہ وزیراعلیٰ کی مسند پر بیٹھتا ہے اسی طرح ایک عام پاکستانی کو نہ امپورٹڈ ترجمان شہباز گل کی گرفتاری سے غرض ہے اور نہ عمران خان پر درج ہونے والے مقدمات سے ایک عام پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا کہ کس کو ضمانت ملتی ہے اور کون جیل جاتا ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کیسے ہیں اور ٹی ٹی پی سوات میں کیوں واپس آئی ہے اس سے بھی ایک عام پاکستانی لاعلم ہے عوام کی اکثریت جو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اسے فکر لاحق ہے تو صرف بڑھتی ہوئی بے روزگاری غربت مہنگائی اور بنیادی سہولیات کے فقدان کی ۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک میں ہر طرف سیلاب پھیلا ہوا ہے جس نے کے پی کے ،سندھ ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے گیارا سو سے زیادہ انسانی جانوں، آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشیوں، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کا نقصان ہو چکا ہے ۔



سیلاب متاثرین کے امدادی سامان پر لوٹ مار

| وقتِ اشاعت :  


ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کے تقریباً اسی فیصد مواضعات سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں۔لوگوں کا کچھ بھی باقی نہیں بچا سب کچھ پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔گورنمنٹ سمیت سماجی تنظیموں اور پاکستان کے مخیر حضرات نے گزشتہ کئی دنوں سے ان اضلاع کے متاثرہ  علاقوں میں  امدادی سرگرمیاں شروع کی ہوئی ہیں۔جس سے وہ متاثرہ  لوگوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں خشک راشن ،ٹینٹ، کپڑے جوتے،بسترے،آٹا،ادویات سمیت ضرورت زندگی کی اشیاء سیلاب زدگان تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ابتدائی دنوں میں تو سب کچھ ٹھیک چلتا  رہا لیکن اب  پچھلے کئی  دونوں سے دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے کہ غیر متاثرہ،پیشہ ور بھکاریوں اور جرائم پیشہ لوگوں نے لوٹ مار کرنے کیلئے  مختلف گروہ بنا لیے ہیں جو امدادی سامان والی گاڑیوں پر یا جہاں امدادی سامان تقسیم کیا جا رہا ہو تا ہے وہاں دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے قدرتی آفات کے بعد متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیاں شروع ہوتے ہی وہاں بڑے پیمانے پر لوٹ مار بھی شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے حقیقی متاثرین تک امداد نہیں پہنچ پاتی۔یہ حالات میں اپنی آنکھوں سے خود بھی دیکھ چکا ہوں۔گزشتہ رات بھی گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج تونسہ شریف کے کمروں میں رکھے ہوئے امدادی سامان پر  ایسے ہی  گروہ کے شرپسندوں نے دیواریں پھلانگتے ہوئے دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیا۔پچھلے کئی روز سے ایسے واقعات معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔



ڈوبتا بلوچستان خاموش انتظامیہ

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں طوفانی بارشوں نے تباہی مچا کے رکھ دی سیلابی ریلوں نے تو سب حدیں ہی مٹادیں اور پورے بلوچستان میں ہر طرف پانی ہی پانی بن گیا۔طوفانی بارشوں کا پانی اور سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزر رہے تھے وہاں موجود بستیوں کو اپنے ساتھ تنکوں کی طرح بہا کے لے جا رہے تھے۔ اس وقت بھی این ایف سی ایوارڈ کی مد میں بلوچستان کو فنڈز رقبے کے لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اس وقت ریاست اور حکومت کہاں ہے۔۔؟ فلڈ کنٹرول ادارے بھی شاید نیند کی گولیاں کھا کر خواب ِخرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔اس وقت بھی بلوچستان میں محکمہ موسمیات نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ گوگل پر موسمیات کی رپورٹ جھوٹی ہوتی ہے جب ہمارے شہر میں بارش ہو رہی تھی تب گوگل موسم صاف بتا رہا تھا جو عبرت ناک بات ہے ۔محکمہ موسمیات بھی عوام کو سیلابی صورتحال سے پہلے سے آگاہ نہ کر سکی۔ پورے بلوچستان میں کل تین بڑی سڑکیں ہیں۔کراچی سے کوئٹہ جعفرآباد سے کوئٹہ پشین سے لاہور تک ان سڑکوں کا برا حال ہے یا تو ان کے پل گر جاتے ہیں یا تو پھر ٹریفک کی وجہ سے جام ہو جاتے ہیں حالیہ بارشوں کی وجہ سے بلوچستان میں مجموعی طور پر سینکڑوں گھرانے تباہ ہوگئے ہیں۔



بلوچستان یا مسائلستان!

| وقتِ اشاعت :  


صوبہ بلوچستان کو اگر مسائلستان کا نام دیا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا یا یوں کہا جائے کہ مسائلستان ہی بلوچستان ہے تو یہ دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہوگی۔ یہ صوبہ رقبے اور زمینی اعتبار سے جتنا وسیع و عریض ہے مسائل کے اعتبار سے بھی ویسا ہی کشادہ اور بھرپور ہے ، بلوچستان کا بارڈر ملک کے باقی تینوں صوبوں کے علاوہ دو مسلم برادر ملکوں سے بھی جڑاہوا ہے۔اگرچہ اس صوبے کو ہر طرح کے مسائل اور خطرات درپیش ہیں لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس میں وسائل اور قدرتی نعمتوں کی بھی کمی نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ یہ وسائل یہ نعمتیں صوبے کے حق میں کبھی فائدہ مند ثابت نہ ہوسکیں جو کہ سب سے بڑا المیہ ہے۔ خیر بات ہورہی تھی بلوچستان یا مسائلستان۔ یہ بات بالکل واضح اور عیاں ہے کہ بلوچستاں میں امن و مان کی صورتحال بد قسمتی سے کبھی پْرسکون نہیں رہی مگر حالیہ سیلاب کی صورت حال نے بھی سب سے پہلے بلوچستان کا رخ کیا اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی،جن اضلاع میں سیلابی صورتحال سے سب سے زیادہ تباہی پیدا ہوئی ان میں لسبیلہ، کوئٹہ،بولان،سبی ،جعفر آباد،صحبت پور،ڈیرہ بگٹی،کوہلو،بارکھان،لورالائی،قلعہ سیف اللہ،زیات،نوشکی اور چمن سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع شامل ہیں۔ ہلاقتوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے جن کی صحیح تعداد اس لئے بتانا مشکل ہے کہ بلوچستان کے اکثر اضلاع تک میڈیا کی رسائی ہی نہیں۔