انڈیا کی عدالت عظمیٰ نے ایودھیا میں رام مندر اور بابری مسجد تنازعے پر طرفین کو تجویز دی ہے کہ وہ اس کے حل کے لیے بات چیت کے ذریعے تازہ کوششیں کریں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ مذہب اور عقیدے سے وابستہ ‘حساس’ اور جذباتی’ معاملہ ہے۔
چیف جسٹس جے ایس كھیہر نے سماعت کے دوران کہا کہ اس طرح کے مذہبی مسئلے بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں اور انھوں نے اس معاملے کے قابل قبول حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی۔
انھوں نے کہا: ‘یہ مذہب اور جذبات سے وابستہ مسئلے ہیں۔ یہ ایسے مسئلے ہیں جس پر تمام فریقین ساتھ مل کر ایک فیصلے پر پہنچیں اور اس تنازعے کو ختم کریں۔ آپ سب مل بیٹھ کر پرامن مذاکرات کریں۔’
خیال رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے عدالت عظمیٰ میں ایودھیا معاملے کی فوری طور پر سماعت کے لیے درخواست داخل کر رکھی ہے جس کے جواب میں عدالت نے یہ تبصرہ کیا ہے۔
سبرامنیم سوامی نے گذشتہ ماہ بی بی سی کے فیس بک لائیو میں کہا تھا کہ ایودھیا میں دو سال کے اندر اندر وہ رام مندر بنوائیں گے اور وہیں بنوائیں گے جہاں وہ پہلے سے موجود ہے۔
انھوں نے کہا تھا: ’ہم کہیں اور رام مندر نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ عقیدے کا معاملہ ہے۔‘
سنہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ جس جگہ پر رام کی مورتی رکھی ہے وہ وہیں رہے گی اور باقی زمین کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
اس میں سے ایک حصہ سنی وقف بورڈ کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اگر تمام فریقین چاہیں تو عدالت پرنسپل مذاکرات کار مقرر کرنے کے لیے تیار ہے۔
تین رکنی بینچ نے مسٹر سوامی سے کہا کہ وہ اس بارے میں فریقین سے بات کر کے عدالت کو 31 مارچ تک آگاہ کریں۔