کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کی زیرصدارت منعقد ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں صوبے کے دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی کے منصوبوں کی پیش رفت اور شمسی توانائی کے فروغ کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا، صوبائی وزراء، اراکین صوبائی اسمبلی ، متعلقہ محکموں کے سیکریٹریوں اور چیف ایگزیکٹو کیسکو سمیت دیگر حکام نے اجلاس میں شرکت کی، اجلاس میں شریک صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی نے بجلی کی فراہمی کے منصوبوں میں تاخیر پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے حلقوں کے عوام میں بجلی کی عدم دستیابی پر بے چینی پائی جاتی ہے اور منتخب عوامی نمائندہ کی حیثیت سے وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں لہذا کیسکو کو تاخیر کا شکار منصوبوں کی فوری تکمیل کا پابند کیا جائے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے ہم پر اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے اور حکومت انہیں زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی ذمہ دار ہے ، انہوں نے کیسکو کو ہدایت کی کہ عوامی نمائندوں کے خدشات اور تحفظات کو جلد از جلد دور کرتے ہوئے بجلی کے منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے، چیف ایگزیکٹو کیسکو نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے گذشتہ چار سال کے دوران کیسکو کو بجلی کی فراہمی کے 7514 منصوبوں کے لیے 5 ارب 60کروڑ 88لاکھ روپے فراہم کئے گئے ہیں جن میں سے 4416 منصوبے مکمل کئے گئے ہیں انہوں نے یقین دلایا کہ اس سال دسمبر تک مزید 2 ہزار منصوبے مکمل کر لیے جائیں گے، اجلاس میں زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کی رفتار کو مزید تیزکرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس سے تقریباً850 میگاواٹ بجلی کی بچت ہوگی جسے گھریلو اور صنعتی استعمال کے لیے بروئے کار لایا جا سکے گا، سی ای او کیسکو نے اجلاس کو بتایا کہ واپڈا کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں نصیر آباد، کان مہترزئی اور قلعہ سیف اللہ میں گرڈ اسٹیشنوں کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں، جبکہ خضدار اور لورالائی میں 500کے وی کے گرڈ اسٹیشنوں کے قیام کی ضرورت ہے، جس سے بجلی کی ترسیل کے نظام کی بہتری کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ اور ولٹیج میں کمی بیشی پر بھی قابو پانا ممکن ہو سکے گا، وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ وہ اس حوالے سے وزیراعظم سے بات کریں گے، اجلاس میں غیر قانونی ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اتفاق کیا گیا کہ اس عمل سے بجلی کے ضیاع کے ساتھ ساتھ کروڑوں سالوں کے پانی کے زیر زمین ذخائرہ کا بے دردی سے استعمال خطرناک صورتحال اختیار کر رہا ہے، جس کا فوری تدارک ضروری ہے ، وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ غیر قانونی ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر عائد پابندی پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور اس معاملے کو قانون سازی کے لیے کابینہ میں پیش کیا جائے، وزیراعلیٰ نے کیسکو کو ہدایت کی کہ آواران کو ترجیح بنیادوں پر نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کیا جائے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ توانائی کے بغیر ترقی کے اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے لہذا صوبے میں شمسی اور توانائی کے متبادل ذرائع کی ترقی کے لیے جامع حکمت عملی مرتب کی جائے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ خوش قسمتی سے بلوچستان میں سال کے بارہ ماہ سورج کی روشنی اور حرارت دستیاب رہتی ہے اگر ہم قدرت کی اس نعمت سے بھرپور استفادہ نہ کر سکے تو یہ ہماری بدقسمتی ہوگی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد ہم پچاس50میگاواٹ کے شمسی توانائی کے پلانٹ لگا سکتے ہیں، ہمیں اس اختیار کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے شمسی توانائی کے مجوزہ منصوبوں پر عملدرآمد کے ساتھ اس شعبہ میں مزید سرمایہ کاری کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر سمریوں اور فائلوں پر عملدرآمد میں تاخیر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کوئی بھی محکمہ اپنا کام اور ذمہ داری دوسرے محکمے پر نہ ڈالے بلکہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے اور اگر کام کے حوالے سے کسی محکمے کو دوسرے محکمے کے ساتھ مسئلہ درپیش ہو تو فوری طور پر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے نوٹس میں لایا جائے تا کہ اس مسئلے کا فوری حل نکالا جا سکے، اس حوالے سے انہوں نے پرنسپل سیکریٹری کو تمام محکموں کو گائیڈ لائن جاری کرنے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ہم اپنے کام میں مخلص ہیں اور اپنی ذمہ داریاں خلوص نیت سے ادا کرناچاہتے ہیں تو معمول کے طریقہ کار سے ہٹ کر آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل اور عوامی مسائل تیز رفتاری سے حل کئے جا سکیں، اجلاس میں کیسکو کے زیر انتظام بجلی کے منصوبوں کی تکمیل اور اس ضمن میں اراکین اسمبلی کے تحفظات دور کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ بھی کیا گیا۔دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کی طرح پولیو بھی حکومت کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے جس طرح ہم نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا ہے اسی طرح پولیو کو شکست دینے کے لیے بھی ہم پوری طرح پرعزم ہیں، بلوچستان کو پولیو سے پاک کرنے کے ہدف کے حصول میں کوئی کوتاہی اور رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی، پولیو مہم میں کوتاہی کے مرتکب متعلقہ حکام کا احتساب کیا جائیگا، اپنے بچوں کے مستقبل کو کسی صورت داؤ پر نہیں لگنے دیں گے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعظم انسداد پولیو سیل کی فوکل پرسن سینیٹر عائشہ رضا فاروق سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، جنہوں نے جمعرات کے روز ان سے یہاں ملاقات کی، جس کے دوران بلوچستان سمیت ملک بھر میں پولیو کے خاتمے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے بلوچستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان کی خصوصی توجہ اور صوبائی حکومت کے موثر اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کی پولیو کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششوں کو متعلقہ عالمی اداروں کی جانب سے بھی پذیرائی مل رہی ہے اور گذشتہ ایک برس کے دوران بلوچستان سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہ ہونا بہتر حکومتی اقدامات کا نتیجہ ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت ہر اہم مسئلے کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور اس کے فوری حل کو یقینی بنایا جاتا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت صحت اور تعلیم کے شعبوں کو خصوصی توجہ دے رہی ہے اور ان شعبوں کی ترقی کے لیے بجٹ میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے ، ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو تنخواہوں اور مراعات کا خصوصی پیکج دیا گیا ہے، جبکہ اساتذہ کو بھی ٹائم اسکیل سمیت مراعات بھی دی گئیں ہیں تاکہ وہ دلجمعی سے اپنے فرائض کی انجام دہی کریں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ڈیوٹی میں کوتاہی برتنے والے ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور اساتذہ کے خلاف کاروائی سے گریز نہیں کیا جائیگا۔ ملاقات کے دوران پولیو کے حوالے سے حساس اضلاع کوئٹہ ، پشین اور قلعہ عبداللہ میں پولیو مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہوئے پاک افغان سرحد پر بچوں کو پولیو ویکسین کے قطرے پلوانے کو ہر صورت یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ملاقات میں پولیو مہم کی کامیابی کے لیے علماء کرام کے تعاون کے حصول کو اہم قرار دیتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ تمام مسلم ممالک نے اسی پولیو ویکسین کے ذریعے جو پاکستان میں بھی استعمال ہو رہی ہے پولیو کا خاتمہ کیا ہے لہذا پولیو ویکسین کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے کئے جانے والے پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں ، ملاقات میں سیکریٹری صحت عصمت اللہ کاکڑ اور دیگر متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔