اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )طویل عرصے کے بعد منعقدہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس وزیراعظم کی سیاسی مصروفیات کے باعث ادھورا رہ گیا، وزیراعظم نواز شریف نے لیہ جلسے میں شرکت کیلئے اجلاس کے بیشتر ایجنڈا کو موخر کر دیا ، اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ جبکہ وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی نے مستعفی ہونے کی وجہ سے شرکت نہیں کی، اجلاس میں انتہائی اہم قومی امور کے حوالے سے 12نکاتی ایجنڈے پر فیصلے کرنے تھے ،سیاسی مبصرین نے اس بات پر قطعی طور پر اپنی حیرت کا اظہار نہیں کیا جب وزیراعظم پاکستان مشترکہ مفادات کے اہم ترین اجلاس کو چھوڑ کر لیہ روانہ ہوگئے جہاں پر انہوں نے حزب اختلاف کے خلاف تقریر کی اور اپنے دل کی بھڑاس نکالی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ایک طویل مدت کے بعد چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اکٹھے ہوئے تاکہ صوبوں اور مرکز کے درمیان شکایات پر بات کریں اور قومی مفاد اور سلامتی کیلئے ان کا حل تلاش کریں وزیراعظم نے اس اہم اجلاس کو ادھورا چھوڑ دیا اور اپنا پرانا بیان دہرایا کہ وہ تمام صوبوں کے برابر اور یکساں ترقی کے خواہشمند ہیں۔ مہینوں بعد اور بڑے احتجاج کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوتا ہے اور اس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنی ریاستی مصروفیات چھوڑ کر اس اجلاس کی مکمل تیاری کر کے آتے ہیں اور اجلاس کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ اپنے اپنے صوبوں کو محرومیوں کے ساتھ لوٹ جاتے ہیں بلکہ یہ پیغام صوبوں میں گھر گھر پہنچ جاتا ہے کہ وزیراعظم کو پسماندہ صوبوں کی تعمیر اور ترقی میں کتنی دلچسپی ہے بعض سیاسی مبصرین کا یہ موقف ہے کہ موجودہ حکومت کا وفاقیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور وہ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں اور ان کے اہم معاملات کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ وفاقیت کے بنیادی روح کے خلاف ہیں اس لئے مہینوں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا جاتا تاکہ وہ صوبوں کے سامنے جوابدہ نہ ہوں اگر مجبوراً اور دباؤ کے بعد اجلاس بلایا جاتا ہے تو اس کا حشر وہی ہوتا ہے جو آج مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کا ہوا۔ سارا ایجنڈا چھوڑ کر سیاسی تقریر کرنے چلے گئے اس جلسہ کو صوبوں اور ملکی سلامتی سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ دریں اثناء مشترکہ مفادات کونسل میں کچھی کینال کیس میں بد عنوانی میں ملوث حکام کو عبرتناک سزادینے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے اور وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہاہے کہ ماضی میں ترقیاتی منصوبے کبھی بھی بروقت مکمل نہیں کیے گئے اور لاگت میں اضافہ معمول بن گیا لہٰذا آئندہ سے تمام منصوبوں کو منظور شدہ لاگت اور نظام الاوقات کے اندر نہایت شفافیت کے ساتھ مکمل کیاجائے ۔ مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی) کااجلاس وزیراعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت منگل کو یہاں منعقد ہوا جس میں پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی ۔سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ نے اجلاس کو 16دسمبر 2016ء کو سی سی آئی کے گزشتہ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔ سی سی آئی نے کچھی کینال کیس میں بد عنوانی کے الزامات کی تحقیقات پر غور کرتے ہوئے متفقہ طورپر فیصلہ کیاکہ کیس میں ملوث تمام حکام کو عبرتناک سزا دی جائے ۔ وزیر اعظم نے کہاکہ گزشتہ ترقیاتی منصوبے کبھی بھی بروقت مکمل نہیں کئے گئے اور لاگت میں اضافہ معمول بنتا گیا ۔ انہوں نے ہدایت کی کہ آئندہ سے تمام منصوبہ جات منظور شدہ لاگت اور مقررہ مدت کے اندر نہایت شفافیت کے ساتھ مکمل کئے جائیں ۔سی سی آئی نے ہائر ایجوکیشن اور 18ویں ترمیم کے بعد کے تناظر میں دیگر ایسے ہی اداروں سے متعلق امور کو حتمی شکل دینے کے لئے تمام صوبائی نمائندوں کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی کے ساتھ میٹنگ کی ہدایت کی ۔ سی سی آئی نے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے 50، 50فیصد حصہ کی بنیادپر 177.661 ارب کی مجموعی لاگت سے سیلاب سے بچاؤ کے قومی منصوبے کے چوتھے مرحلے کے لئے سرمائے کی فراہمی کی منظوری دی۔ ایل این جی کی درآمد کے ایجنڈ ا آئٹم پریہ فیصلہ کیاگیا کہ اس حوالے سے سمری آرا طلب کرنے کے لئے صوبوں کو بھیجی جائے گی اور اسے سی سی آئی کے آئندہ اجلاس میں پیش کیاجائے گا۔ سی سی آئی نے چھٹی مردم اور خانہ شماری پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزارت خزانہ نے یقین دلایاکہ مردم شماری انتہائی شفافیت کے ساتھ مقررہ مدت کے اندر مکمل کی جائے گی۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اجلاس کو بتایاکہ قومی جنگلات پالیسی 2015ء کے بارے میں تمام صوبوں کے ساتھ مشاورت مکمل ہو چکی ہے ۔ یہ پالیسی اضافی وفاقی تکنیکی اور ماہرانہ مشاورت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی پروٹوکولز اور معاہدوں پر دستخط کنندہ کی حیثت سے بین الاقوامی فورموں کے ساتھ باہمی رابطہ اور معاونت فراہم کرتی ہے ۔جنگلات صوبائی موضوع ہونے کی بناء پر عملدرآمدی مقصد کے لئے صوبائی حکومتوں کے کنٹرول میں ہی رہیں گے۔ وفاقی وزیر پانی وبجلی نے سی سی آئی کو بتایاکہ واپڈااور حکومت پنجاب کے درمیان خالص ہائیڈل منافع کے تصفیہ کے حوالے سے امور طے کرلئے گئے ہیں جس میں واپڈا نے حکومت پنجاب کے حق میں 38.12 ارب روپے مالیت کا پرامیسری نوٹ جاری کیا ہے جبکہ خالص ہائیڈل منافع واجبات کی وصولی کے لئے نیپرا کے پاس دائر کرنے کے لئے ٹیرف پٹیشن زیر غور ہے ۔ سی سی آئی نے بجلی کی پیداوار ، ترسیل اور تقسیم ایکٹ 1997کے قواعد میں ترمیم کی بھی منظوری دی۔