اسلام آباد : سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے وفاقی اکائیوں کی زبانوں کو صوبوں کی زبان قرا ردینے سے متعلق آئینی ترمیمی بل کی منظور ی دے دی جس کے تحت پنجابی ، سندھی، پشتو اور بلوچی کو بالترتیب پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی زبانوں کو آئینی طورپر تسلیم کرلیا گیا ہے ۔سات علاقائی زبانوں بشمول سرائیکی، ہندکواور براہوی کو قومی زبان کا درجہ دینے کے بل کو مسترد کردیا گیا ہے جب کہ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ منظور ہونے والا بل صوبوں کی زبانوں کو وفاقی اکائیوں کی زبانیں تسلیم کرنے کے بارے میں ہے صرف اردو کو ہی پہلے کی طرح قومی زبان کو درجہ حاصل رہے گا اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے ۔ قائمہ کمیٹی نے اقلیتی اراکین پارلیمنٹ کے لئے الگ سے حلف کے متن کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل اور متعلقہ تمام غیر مسلم برادریوں کے نمائندوں کی رائے طلب کرلی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران اردو کو پاکستانی زبان قرار دینے کے مطالبے پر سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک اور اپوزیشن لیڈ ر چوہدری اعتزازاحسن کے درمیان تکرار ہوگئی اپوزیشن لیڈر نے واضح کیاکہ اردو ، اردو ہے اس کو تبدیل کرنے کی بات کرکے ہمارے جزبات کو مجروح نہ کیا جائے ۔بدھ کو قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیرمین سینیٹر جاوید عباسی کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔اجلاس کی کارواءئی کے دوران سینیٹر سسئی پلیجو و سینیٹر مختار احمد دھامراکے صوبوں کی زبانوں کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کرنے جبکہ سینیٹر کریم خواجہ کے سات علاقائی زبانوں بشمول سرائیکی کو قومی زبان کا درجہ دینے کے الگ الگ آئینی ترمیمی بلز پر غور کیا گیا اجلاس میں شریک وزیر اعظم کے مشیر برائے ادب و ثقافت عرفان صدیقی نے بلز کے ھوالے سے حکومت کا موقف پیش کیا اور کہاکہ حکومت عالقائی زبانون کی حیثیت اور اہمیت کو تسلیم کرتی ہے تاہم اردو ہی ہماری قومی زبان ہے دیگر زبانوں کی ترویج اور فروغ کیلئے متعلقہ حکومتی ادارے سرگرمی سے کام کررہے وہیں پاکستان اکادمی ادبیات قاسم بگھیونے بتایا کہ حال ہی میں تمام علاقائی زبانوں کے ماہرین سے مشاورت کی گئی پاکستان میں74زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں ان ماہرین نے 14زبانوں کو قومی حیثیت دینے کی سفارش کی ہے پہلے مرحلے میں سات علاقائی زبانوں کو یہ درجہ دینے کیہ قرارداد منظور کی گئی اس سے قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا بھارت میں قومی زبان کمیشن قائم ہے ماہرین نے پاکستان مین بھیا یسا کمیشن قائم کرنے کی سفارش کی ہے بھارت میں 27زبانوں کو قومی زبانیں تسلیم کیا گیا ہے ۔ وزارت قومی ورثہ کے حکام نے اس دلیل کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے کہاکہ بھارت میں صرف ہندی اور انگریزی کو قومی زبانوں کی حیثیت حاصل ہے دیگر 21زبانیں ریاست کی زبانیں قرار دی گئی ہیں پاکستان مین بھی آئین کے تحت یہ سہولت حاصل ہے اور کوئی بھی صوبہ اپنی زبان کو سرکاری حیثیت دے سکتا ہے ۔سابق وزیرقانون فاروق ایچ نائیک نے رائے دی کہ اردو کو پاکستانی زبان کا درجہ دیا جائے کیونکہ دنیا کے تمام ملکوں میں ان کی ملکی زبان کا حوالہ دیا جاتا ہے یعنی وہ زبان اس دھرتی کی زبان ہوتی ہے ۔ انہوں نے صوبوں کی زبانوں کو تسلیم کرنے کے بل کی حمایت کی اور کہاکہ ہمیں کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیئے جس کی وجہ سے زبان اور نام کی بنیاد پر نفرت ابھرنے کا خدشہ ہو ۔چوہدری اعتزاز احسن نے واضح کیاکی اردو، اردو ہے اس کو کوئی اور زبان قرار نہیں دیا جاسکتاہمارے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے ۔سینیٹر نہال ہاشمی نے ان کے موقف کی تائید کی اجلاس میں اتفاق رائے سے وفاقی اکائیوں کی زبانوں کو صوبوں کی زبان قرا ردینے سے متعلق آئینی ترمیمی بل کی منظور ی دے دی جبکہ سینیٹر کریم خواجہ نے اپنے بل پر اصرار نہیں کیا کہ وہ خاموش اختیار کرتے ہیں اجلاس کے دوران سینٹراعظم سواتی کے اقلیتی اراکین پارلیمنٹ و عوامی عہدیداروں کے حلف سے متعلق آئینی ترمیم کا جائزہ لیا گیا اور متذکرہ اداروں اور نمائندون سے رائے طلب کرلی گئی۔ اجلاس میں رخسانہ قمبر کی پبلک پٹیشن کا جائزہ لیا گیا جو کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے اسٹڈی سنٹر کے بارے میں ہے اس معاملہ میں وزارت قانون و انصاف سے رائے طلب کرکے معاملہ پر آئیندہ اجلاس میں غور کا فیصلہ کیا گیا اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیرمین کمیٹی جاوید عباسی نے کہا کہ کمیٹی نے کریم خواجہ کے بل کو مستردکردیا ہے جب کہ سینیٹر سسئی پلیجو و سینیٹر مختار احمد دھامرا کے منظور ہونے والے بل کے بارے میں انھوں نے وضاحت کی کہ یہ بل وفاقی اکائیوں کی زبانوں کو صوبوں کی زبان تسلیم کرنے کے بارے میں ہے جب کہ صرف اردو کو ہی پہلے کی طرح قومی زبان کو درجہ حاصل رہے گا اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے ۔