دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے حوالے سے کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا۔
پانچ روز قبل آئی سی جے کی جانب سے جاری کردی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے کیس کی سماعت 15 مئی کو ہوگی۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے بھارت نے آئی سی جے کو خط لکھ کر کلبھوشن یادیو کی سزا کے معاملے پر پاکستان پر ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔
بھارت نے 10 مئی کو جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رابطہ کیا تھا۔
بھارت کے رابطہ کرنے کے بعد آئی سی جے کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ‘بھارت کا دعویٰ ہے کہ انڈین نیوی کے ریٹائرڈ افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستان نے ایران سے اغوا کیا اور بعد ازاں یہ ظاہر کیا گیا کہ اسے 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا’۔
بھارت نے آئی سی جے میں دائر کی جانے والی درخواست میں کہا تھا کہ متعدد درخواستوں کے باوجود پاکستانی انتظامیہ بھارت کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی فراہم نہیں کررہی جو کہ ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی ہے۔
بھارتی جاسوس کی سزائے موت پر عمل درآمد فوری رکوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سزائے موت کے فیصلے کو منسوخ نہیں کرتا تو عالمی عدالت انصاف پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی قوانین اور ویانا کنوینشن کے خلاف دیئے گئے اس فیصلے کو غیرقانونی قرار دے اور سزایافتہ بھارتی شہری کی رہائی کے احکامات جاری کرے۔
خیال رہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے گذشتہ ماہ موت کی سزا سنائی تھی۔
3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔
‘را’ ایجنٹ کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی ‘را’ میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔
کلبوشھن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ‘را’ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔
ویڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
گذشتہ ماہ 10 اپریل کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنادی گئی تھی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو یہ سزا پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی کارروائیوں پر سنائی گئی تھی۔
کلبھوشن یادیو کا ٹرائل فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 59 اور سرکاری سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 3 کے تحت کیا تھا، جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کردی تھی۔
سزا کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اپنے فوری ردعمل میں بھارت کا کہنا تھا کہ اگر کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد ہوا تو یہ ’پہلے سے سوچا سمجھا قتل‘ تصور کیا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سشما سوراج کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کلبھوشن نے پاکستان میں تخریب کاری کرنے کااعتراف کیا ہے۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا،’کلبھوشن نے بھارتی حکومت کی ایما پر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا اعتراف کیا’۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی دفتر خارجہ نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو طلب کرکے کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائے جانے کو ‘مضحکہ خیز’ قرار دیتے ہوئے انہیں احتجاجی مراسلہ بھی دیا تھا۔
واضح رہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط بھارت کے ان دعوؤں کو مسترد کرچکے ہیں، جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ دے کر دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
عبدالباسط نے ایک انٹرویو کے دوران دو ٹوک انداز میں واضح کیا تھا کہ ‘ہمارے درمیان دوطرفہ معاہدہ موجود ہے جس میں یہ واضح تحریر ہے کہ سیاسی اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر فیصلہ میرٹ پر ہوگا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس لیے اب تک ہم نے ریاست کے قانون اور بھارت سے ہونے والے دو طرفہ معاہدے کے مطابق سخت فیصلہ کیا ہے، ہم نے کسی چیز کی خلاف ورزی نہیں کی، جبکہ ہم اپنے قانون اور ساتھ دو طرفہ معاہدے اور عزم کے مطابق کارروائی کررہے ہیں’۔