|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2019

کراچی کی مقامی عدالت نے صحافی شاہ زیب جیلانی کے خلاف سائبر دہشت گردی، الیکڑونک جعل سازی اور ریاستی اداروں کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کرنے سے متعلق مقدمہ عدم ثبوت کی بنا پر ختم کردیا۔

جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوبی) کی عدالت میں صحافی شاہ زیب جیلانی کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے لہذا مقدمہ سی کلاس کیا جاتا ہے۔

جس کے بعد عدالت نے شاہ زیب جیلانی کے خلاف درج مقدمہ ختم کردیا۔

اس سے قبل 30 اپریل کو عدالت نے سائبر دہشت گردی، الیکڑونک جعل سازی اور ریاستی اداروں کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کرنے سے متعلق مقدمات میں صحافی شاہ زیب علی شاہ جیلانی کی عبوری ضمانت قبل ازگرفتاری منظور کی تھی۔

خیال رہے کہ مولوی اقبال حیدر کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے شاہ زیب علی شاہ جیلانی کے خلاف سائبر دہشت گردی کی سیکشن 10 اے، الیکٹرانک جعل سازی سیکشن 11 اور پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کی شق 20 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوی امداد حسین کھوسو نے شاہ زیب جیلانی کے وکیل اور ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جرح کے بعد ضمانت پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

15 اپریل کو شاہ زیب علی شاہ جیلانی نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوی امداد حسین کھوسو کی عدالت میں اپنے وکیل کے ذریعے ضمانت میں توسیع کی درخواست جمع کرائی جہاں ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت کی تصدیق کری گئی۔

اس سے قبل شاہ زیب علی جیلانی کے وکیل سلمان مرزا نے ایف آئی آر میں درج الزامات کو قطعی مسترد کیا اور کہا تھا کہ ٹی وی شوز اور ٹوئٹر پر دیئے گئے بیان سائبر دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے کیونکہ یہ پاکستان الیکڑونک کرائم ایکٹ 2016 کی دفعہ 6، 7، 8 اور 9 سے منسلک نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایف آئی اے حکام نے بدنیتی کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی اور عدالت سے اپنے موکل کی عبوری ضمانت منظور کرنے کی درخواست کی۔

دوسری جانب ایف آئی اے تحقیقاتی افسر اکبر خان نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’ ٹی وی چینلز کے دو پروگرامزمیں شاہ زیب علی گیلانی کے متنازع بیانات سے سرکاری اداروں، سمیت مسلح افواج اور عوام میں پریشانی پھیلی۔

انہوں نے جج سے شاہ زیب جیلانی کی درخواست کو مسترد کرنے اور ان کی گرفتاری کے لیے زور دیا۔

خیال رہے کہ امریکی صحافتی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے ستمبر 2018 میں اپنی جاری کردہ رپورٹ میں سیکیورٹی اداروں پر ’رپورٹنگ پر خاموشی سے مؤثر پابندیاں‘ لگانے کا الزام لگایا تھا۔

واضح رہے کہ شاہ زیب جیلانی کے خلاف درخواست میں 2017 میں دنیا ٹی وی کے ایک پروگرام کے دوران حساس اداروں کے خلاف نامناسب ریمارکس دینے اور وہی ریمارکس دوبارہ 2019 میں دہرانے کا الزام عائد کیا گیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق درخواست پر ابتدائی پولیس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ شاہ زیب جیلانی نے اپنی ٹوئٹ میں ریاستی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف ’تضحیک آمیز، حقارت آمیز، بدتہذیبی اور ہتک آمیز زبان استعمال کی‘۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ ٹوئٹ ’عوام، معاشرے اور ریاستی اداروں میں عدم تحفظ اور خوف کی لہر پیدا کرنے کے مترادف ہے‘۔