|

وقتِ اشاعت :   June 6 – 2021

بلوچستان میں مری ایجنسی کے علاقے کوہ جاندران اور ماڑتل کے مقام پر گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے۔ بتا یا جا رہا ہے کہ گیس کا یہ ذخیرہ ضلع ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں دریافت ہونے والے ذخیرے سے کئی گنا بڑا ہے۔ دونوں مقامات سے نکلنے والی گیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے کے بعد پاکستان کو ایران اور ترکمانستان سے گیس خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ بلوچستان کے ذخائر پاکستان کی ضروریات آئندہ 50 سالوں تک پوری کرسکیں گے۔

گیس کی دریافت پر سوشل میڈیا پر ملا جلا درد عمل سامنے آگیا۔ ماسکو میں مقیم اوورسیز پاکستانی بلوچ یونٹی کے بانی ڈاکٹر جمعہ خان مری نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس دریافت کو پاکستان کی انرجی سیکٹر کے لئے خوش آئند قدم قرار دیا۔ اورکہا کہ یہ ملک کی اکنامی کو مزید بہتر کرنے میں ایک اہم پیشرفت ثابت ہوگی۔ ڈاکٹر جمعہ مری نے گیس کے ذخائر میں بلوچستان کو برابر کا حصہ دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ دوسری جانب بعض سیاسی حلقوں نے اس دریافت کو کچھ یوں بیان کیا: ’’بڑے بھائی (پنجاب) کے لئے خوشخبری!!! بلوچستان میں مزید نئے گیس کے ذخائر دریافت ہوگئے‘‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں ضلع ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس سے ضلع کے بیشترعلاقے آج بھی اس سہولت سے محروم ہیں۔ اور گیس پورے پنجاب سمیت ملک کے کونے کونے تک دی جارہی ہے۔

ملنے والی رپورٹ کے مطابق ضلع کوہلو کے علاقے فاضل چیل میں ماڑتل کے مقام پرگیس کی دریافت ہوئی ہے۔ گیس کا دوسرا بڑا ذخیرہ کوہ جاندران کے پہاڑی سلسلہ میں دریافت ہواہے۔ جس کو آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل) نے ضلع بارکھان کا علاقہ قراردیا ہے۔ واضح رہے کہ کوہ جاندران کا پہاڑی سلسلہ ہے جو ضلع کوہلو اور ضلع بارکھان تک پھیلا ہوا ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق گیس کمپنی نے گیس پلانٹ کوہ جاندران اس مقام پر لگایا ہے جو ضلع کوہلو اور ضلع بارکھان کے سنگم پر واقع ہے۔ تاہم حدود کا تعین کرنا ایک تنازعہ بن چکا ہے۔ ان علاقوں کی ملکیت کے دعویدار مقامی قبائل ہیں۔ ان کی جدی پشتی اراضی ہے۔ جہاں وہ صدیوں سے اپنے مال مویشی پالنے کے علاوہ زراعت کے طورپر استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس اراضی کی ان کے پاس قانونی دستاویزات بھی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے اور ان مقامی قبائل کی مشترکہ زمین کی حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے اور ان سے ان کی زمین کا معاوضہ طے کرنے کے لئے معاہدہ کیا جائے۔ تاکہ ان کی حق تلفی نہ ہو۔18 ویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات کوصوبائی ملکیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس آئین کے تحت نکلنے والی گیس کی آمدنی کا پچاس فیصد حصہ صوبوں کا ہوتا ہے۔ بلوچستان میں نکلنے والی گیس کے حوالے سے وفاقی حکومت کے پاس کوئی مثبت یا واضح پالیسی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے یہاں ماضی میں معدنیات اور دیگر وسائل نکالنے پر ایک مزاحمتی تحریک نے جنم لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ مری ایجنسی کے سیاسی و قبائلی حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ضلع ڈیرہ بگٹی کے عوام کو سوئی اور دیگر علاقوں سے نکلنے والی گیس کی جائز قیمت یا حقوق نہیں دیے گئے جس کی وجہ سے آج ضلع ڈیرہ بگٹی بھی جنگ کی لپیٹ میں ہے۔

ضلع کوہلو کے مقامی افراد کایہ بھی مطالبہ ہے کہ ضلع میں ایک مائیننگ انجینئرنگ انسٹیٹیوٹ قائم کیا جائے کیونکہ یہ خطہ معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ تاکہ یہاں کے لوگ مائیننگ سیکٹر میں اپنی اسکل ڈیولپ کرسکیں۔ اور ان کمپنیوں میں ملازمت کے لئے کوالیفائی کرسکیں۔ تاہم حکومت نے مقامی افراد کی معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوئی پالیسی مرتب نہیں کی۔ حکومت کا ایک ہی مقصد ہے کہ’’ جتنا ہاتھ لگے اتنا لوٹ لو‘‘ کی سوچ کے ساتھ گیس نکالنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس سے مستقبل میں ایک اور جنگ کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اوراس عمل سے بلوچستان میں جاری جنگ کو بھی مزید تقویت مل سکتی ہے۔بالخصوص مری ایجنسی خصوصاً ضلع کوہلو کو موجودہ بلوچ مزاحمت کا سرچشمہ کہا جاتا ہے۔ جہاں دو ادوار میں بلوچ مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ پہلی مزاحمتی تحریک بھٹو شاہی کے دور میں جبکہ دوسری سابق صدرپرویز مشرف کے دور میں شروع ہوئی،جو تاحال جاری ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے حکومت اور انکی کمپنیاں ضلع کوہلو کے مختلف علاقوں میں گیس اور تیل اور دیگر قیمتی قدرتی معدنیات کی تلاش میں بھاری مشینری کے ساتھ سرگرداں ہیں۔ان معدنیات کی تلاش میں وفاقی حکومت نے اربوں روپے خرچ کئے اورمعدنیات کو تلاش کرنے کیلئے ضلع بارکھان کے کچھ علاقوں کے ساتھ ضلع کوہلو کے قریبا ًہر میدان اور پہاڑپربلڈوزراور دیگر مشینری کے ذریعے روڈ بنائے گئے اور سروے کئے گئے۔ کوہلو کے سب سے بڑے پہاڑ جاندران، جہاں انسان کا پیدل جانا مشکل تھا اس پہاڑی پر بھی حکومت کی مدد سے گیس کمپنی نے کئی کچے روڈ بنائے۔اسی طرح ماڑ کوہ، بیر کوہ، چلیں تل،سئوڑی، فاضل چیل، نیلی،منجھرہ،ماوند،سفید اور قریباً ہر پہاڑی پر کمپنی کچی سڑکوں کے ذریعے گیس و تیل تلاش اور نکالنے کی سرتوڑ کوشش میں مصروف ہے۔ یہاں تک کہ کمپنی نے اس مقصد کیلئے فاضل شاہ کوہ سے ملحقہ پہاڑوں پر کئی سڑکیں بنائیں۔
یہاں کی آبادی کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا اور گلہ بانی ہے۔ ان کمپنیوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے مال مویشی کی چراگاہیں سکڑ رہی ہیں۔ ان چراگاہوں کو محدود کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف جاندران،ماڑ اور گزگاڑ میں گیس کمپنی نے قدرتی پانی سے بھرے تالابوں سے پانی بھرنا شروع کردیا،جو کہ یہاں مکینوں کے مال مویشیوں کیلئے پانی کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں۔ اب ان کمپنیوں کی بے حد پانی کے استعمال سے مقامی لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔

کوہلو کی تحصیل کاہان بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کا آبائی علاقہ ہے۔ انہوں نے بلوچ کاز کے لئے متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کی زندگی میں حکومت نے کوہلو کے علاقے بامبھور سے تیل اور گیس نکالنے کی کوشش کی تو نواب مری نے اپنے قبیلے کے ہمراہ مزاحمت کی۔ حکومت کو تیل اور گیس کے کنویں سیل کرنا پڑے۔ اب نواب صاحب اس دنیا میں نہیں رہے۔ حال ہی میں کمپنیوں کی بدمعاشیوں کو دیکھ کر لوگ نواب صاحب کی سیاسی موقف کو درست قرار دے رہے ہیں۔کوہلو میں آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس منصوبے میں مقامی افراد کو نظر انداز کیا جارہا ہے جس سے مقامی افراد میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ مقامی افراد کے آئینی و قانونی حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ اے پی سی کا کہنا ہے کہ جاندران بلاک 4 جہاں سے گیس نکل رہی ہے اس علاقے کو ضلع بارکھان کا حصہ قرار دیا جبکہ یہ علاقہ ضلع کوہلو کی حدود میں آتا ہے۔ضلع کوہلو کے عوام بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر نالاں ہیں۔ ضلع میں کیسکو حکام نے اپنی من مانی شروع کی ہے بجلی نہ ہونے سے جہاں گھروں میں پانی ناپید ہوچکا ہے وہیں شعبہ زراعت بھی بری طرح متاثر ہوچکا ہے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ شہری علاقوں میں 18گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں 20گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ علاوہ ازیں کوہلو میں محکمہ پی ایچ ای کے واٹر سپلائی کے بور گزشتہ کئی ماہ سے خراب ہیں اورعوام کو پینے کے صاف پانی کیلئے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان بوروں کی مرمت کے لئے ماہانہ لاکھوں روپے کہاں جارہے ہیں؟۔ اس وقت نیوکلی،محبت آباد،پیپلز کالونی،کرم خان شہر سمیت مختلف علاقوں میں پینے کا پانی ناپید ہوچکا ہے۔ضلع میں علاج و معالجہ کا مسئلہ بھی سنگین ہوچکا ہے۔ ضلع میں علاج معالجہ کی سہولت میسر نہیں ہے۔عمارتیں موجود ہیں جہاں نہ ڈاکٹرز ہیں اور نہ ہی ادویات ۔ضلع میں تعلیمی صورتحال بھی غیر تسلی بخش ہے، ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

جب بھی ضلع کوہلو کا ذکر آتا ہے تو بلوچستان کے مشہور سیاسی رہنما اور گوریلا لیڈر شیر محمد مری کا ذکر نہ کرنانا انصافی ہوگی۔ ان کی شہرت کا آغاز 1946ء میں اس وقت ہوا جب انہوں نے میر نہالان خان بجارانی کے ساتھ مل کر مظلوم پارٹی کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کوہلو کے مقام پر پارٹی کا پہلا کنونشن منعقد کیا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے اور نتیجہ ان کی گرفتاری کی صورت میں نکلا۔ ماضی میں جب بلوچستان پر فوج کشی کی گئی تو شیر محمد مری نے اس کے خلاف مسلح جدوجہد کی جس پر انہیں جنرل شیروف کا خطاب ملا۔ شیر محمد مری کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے وہ ایک اچھے ادیب اور محقق بھی تھے۔

بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت ضلع کوہلو کے ایک غار میں ہوئی۔ نواب کی شہادت کے وقت بھی اس غار میں بلوچ آزادی پسند رہنما میر بالاچ خان مری ان کے ساتھ موجود تھے۔ فوجی آپریشن سے پندرہ منٹ پہلے نواب صاحب نے انہیں اور اپنے پوتے براہمداغ بگٹی کو وہاں سے جانے کے لیے کہا لیکن انہوں نے نواب صاحب کو چھوڑ جانے سے انکار کیا تھا جس پر نواب بگٹی نے زبردستی انہیں وہاں سے بھیج دیا۔بالاچ مری پچھلے کئی برسوں سے قبائلی معاملات کے ساتھ ساتھ بلوچ مزاحمتی تحریک کے اہم ترین رہنماؤں میں تصور کیے جاتے رہے بالاچ مری پاک افغان سرحد کے قریب سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں جان بحق ہوگئے۔

کوہلو کی سرزمین نے بے شمار سپوت پیدا کئیجنہوں نے حق اور سچ کا علم نہیں چھوڑا۔ آج یہ علم پورے بلوچستان کے عوام نے اٹھایا ہوا ہے۔