اسلام آبا د: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ڈاکٹر عبد المالک بلوچ اور سر دار اختر مینگل کے دعوئوں کو مسترد کردیا۔ایک انٹرویومیں وزیراطلاعات نے کہاکہ بعض طبقات میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کہنا کہ حکومت اور فوج الگ ہیں (تاہم) موجودہ حکومت میں ایسا کچھ نہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مختلف نقطہ نظر کو سننے کے بعد فیصلے کرتے ہیں۔
وزیر اطلاعات نے اختر مینگل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب انہیں (اختر مینگل) بجٹ کیلئے یا مفادات کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو، انہیں اسٹیبلشمنٹ سے نہیں حکومت سے بات کرنی ہوگی تاہم فواد چوہدری نے اس بات پر اعتراف کیا کہ ایک نقطہ نظر یہ موجود ہے کہ بلوچ شدت پسندوں سے ہر گز بات نہیں کرنی چاہیے، ہم اسے دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے کہ ہم کس سے بات کر سکتے ہیں اور کس سے نہیں کر سکتے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ صوبے میں عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا سوچ رہے ہیں پھر انہوں نے شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی سے متعلق اپنا خصوصی معاون مقرر کیا۔
انہوںنے کہاکہ تیسرے مرحلے میں ہم یہ طے کریں گے کہ ہم کس گروپس سے بات کر سکتے ہیں اور کن کن گروپس سے ہم بات نہیں کرسکتے ہیں، پھر ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس چیز کے بارے میں بات کی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی ریاست کو کیا مراعات دی جاسکتی ہیں یا نہیں دی جاسکتی ہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ بھارت سے منسلک گروپس کو پہلے ہی اس عمل سے خارج کردیا گیا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ بھارت سے منسلک ہونے اور بھارت کے استعمال میں ہونے میں فرق ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنا مشکل ہو گا جنہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھارت سے پیسے لیا، وہ لوگ جن کو (کسی نے) استعمال کیا تھا، وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ رات بلوچ رہنماؤں سر دار اختر مینگل اور ڈاکٹر عبد المالک نے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے حکومت کے منصوبے سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے کا فیصلہ صرف فوجی قیادت کے پاس ہے۔