|

وقتِ اشاعت :   July 11 – 2021

بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء او رسینیٹر سرفراز احمد بگٹی نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ناراض لوگ وہی ہیں جو ریاست کے آئین کے پابند ہیں جن کا ذکر بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے کیا ہے جبکہ دوسری جانب یہ لوگ دہشتگرد ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے قوم پرست لیڈران نے ملک میں ایک شوشہ چھوڑا ہے کہ بلوچستان پسماندہ ہے ترقی نہیں ہے اس لیے بغاوت ہو رہی ہے

جبکہ بلوچستان میں ایسے بھی ڈسٹرکٹ ہیں جن کی ترقی دوسرے علاقوں کی طرح ہے مگر وہاں ایک بھی فراری کیمپ نہیں ہے جبکہ کئی علاقوں میں زیادہ فراری کیمپ ہیں تو پاکستان کے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس تحریک کی بلوچستان کے پسماندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے انہوں نے کہا کہ میں اس سردار کو بھی ناراض نہیں کہتا جو دبئی میں آسودہ زندگی گزار رہا ہے اور کبھی کبھار اسمبلی سیشن میں شامل ہوتا ہے اور کبھی نہیں جبکہ وہ سردار جنہوں نے ایک مسلح تنظیم بنا کر ہمارے پاکستانیوں کا شہید کیا ہے

انہوں نے کہا کہ میں اس عام بلوچ کو ناراض سمجھتا ہوں جو سردی میں ٹٹرتا ہے اور گرمی میں جھلستا ہے ایک سوال کے جواب میں سرفراز بگٹی نے کہا کہ مسنگ پرسنز ریاست کے خلاف ایک ٹول کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے جبکہ بلوچستان میں ان پنجابیوں کے قتل پر کیوں بات نہیں ہوتی جو ہزاروں لوگ انہوں نے قتل کیے ہیں۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ عمران خان ہم سے مشاورت کرکے اپنے لیے نمائندہ چنیں اگر شاہ زین بگٹی اس پروسیس کو کامیابی سے آگے نہیں لے جاتا تو وزیراعظم کے پاس دوسرے آپشن موجود ہیں انہوں نے کہا کہ ضروری یہ ہے کہ ہم نے مذاکرات کی بات کی انہوں نے اس کا کیا جواب دیا انہوں نے کہا کہ جب ہم نے مذاکرات کی بات کی تو اللہ نظر نے کہا کہ ہم مذاکرات اس بات پر کریں گے

کہ آپ اپنی فوج بلوچستان سے نکال لیں اور انہیں آزاد بلوچستان دے دیں کیا ہم پاکستان کی سالمیت ان لوگوں کے حوالے کریں جو مرنے مارنے اور پاکستان کو توڑنے کیلئے تیار ہوں انہوں نے کہا کہ پھر بھی ہم ان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہیں اللہ نظر آئیں ہمارے ساتھ بیٹھیں ہم بات کریں گے مگر کیا اللہ نظر اور حیربیار اس موومنٹ کو ختم کرنے کو تیار ہیں

اس وقت صرف بی ایل اے میں تین دھڑے ہیں اس کی قد و قال پر گفتگو ہونی چاہیے مگر اس پر ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ جب ریاستی سطح کا کوئی فیصلہ ہو تو اس میں سب کو ساتھ لیا جاتا ہے جبکہ ایک ترجمان مقرر کیا جاتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس پروسیس میں تما م لوگوں کو ساتھ لیا جائے اور اسے صرف باتوں کی حد تک نہ رکھیں بلکہ اسے عملی جامعہ پہنایا جائے کیونکہ ایک پرامن اورخوشحال بلوچستان سب سے زیادہ اہم ہے۔