|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2021

فلسطین اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے مظالم کی حمایت کوئی نہیں کرسکتا، یہ صورت حال بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے۔ تاہم ستم رسیدہ فلسطینیوں کے مصائب دور کرنے کے لیے کوئی قابل عمل حل تلاش کرنا ہوگا۔ 2003میں میری جن بھی اسرائیلیوں سے ملاقات ہوئی ان میں سے اکثر نے یہ تسلیم کیا کہ دوسرا انتفادہ اسرائیلی قبضے کے خلاف عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنے میں بہت کامیاب رہا۔ اس کے برعکس نو گیارہ حملوں کے بعد ہونے والے خود کُش حملوں پر دنیا کا مخالفانہ ردعمل سامنے آیا اور ان سے اسرائیل کو ان بمباروں سے تحفظ کے لیے کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کرنے کا جواز تراشنے کا موقعہ مل گیا۔ ایسے کسی مستقبل بندوبست کا کوئی اخلاقی جواز نہیں لیکن کسی کے تحفظ کے حق سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔

یہ مخمصہ دونوں جانب پایا جاتا ہے۔اگر اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے بالاتفاق موجودہ دنیا کا حصہ تسلیم کرلیا جائے تو اسے فلسطینیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول بھی ماننا پڑیں گے۔ اسی طرح اگر فلسطینی اپنی الگ ریاست اور اپنی زمینیں واپس چاہتے ہیں تو بندوق کے زور پر وہ یہ مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے۔ یہ تاریخی المیہ ہے کہ جب کلنٹن حکومت اپنے آخری سانس لے رہی تھی تو یاسر عرفات ایک جامع معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے۔ آج کی شرائط اس وقت ہونے والے معاہدے کے پاسنگ بھی نہیں ہیں۔

اسرائیل کی وزارتِ خارجہ میں سفارت کاروں نے 2003میں مجھے بتایا تھا کہ بھلے سے عربوں کو اسرائیل سے چار جنگوں میں شکست ہوچکی ہے لیکن فلسطینیوں نے مذاکرات کی میز پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امارات، بحرین، مراکش، مصر، الجیریا اور قطر جیسے عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں۔ ترکی 2005 میں نہ صرف واحد غیر عرب ملک تھا جس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات تھے بلکہ دونوں کے درمیان عسکری تعاون کے منصوبے بھی جاری تھے۔ طیب اردوان کے دور میں یہ پروگرام رکے ہی نہیں بلکہ ختم ہوگئے۔

ہولوکاسٹ ایک حقیقت ہے۔ ہٹلر اور اس کے کارندوں نے یہودیوں کے ساتھ جو سفاکانہ مظالم روا رکھے مسلمانوں کے عقائد میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ مزید برآں مسیحیوں نے بھی اسپین میں صدیوں یہودیوں کو مظالم کا نشانہ بنایا۔ یہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ اس خطے میں یہود اور مسلمان اعلان بالفور سے قبل امن و آشتی کے ساتھ رہا کرتے تھے لیکن اس معاہدے نے ان دونوں کے درمیان بقول کشنر کے زمین جائیداد کا مسئلہ بنادیا۔ اس وقت سے مسلمانوں میں یہودیوں کی مخالفت شدت اختیار کرتی آرہی ہے۔ یہ بات کس قدر آسانی سے فراموش کردی گئی کہ یہود پر مسیحیوں نے مظالم کے پہاڑ توڑے تھے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح یہود کے بارے میں ہمارے ہاں نہ جانے کیا کچھ کہا جاتا ہے لیکن جن یہودیوں سے مجھے ذاتی طور پر ملنے کا موقع ملا ہے میں نے ان میں دیگر انسانوں کی طرح اچھے اور برے دونوں ہی طرح کے لوگ دیکھے ہیں۔

میرے دوستوں میں آنجہانی بزنس مین فرینک نیومین اور امریکی معالج مارک سیگل میرے لیے بھائیوں کی طرح تھے۔ صرف مذہب کو بنیاد بنا کر ایک پورے نسلی گروہ کو نفرت کا نشانہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟

اتفاق دیکھیے کہ فلسطینیوں سے ہمارے تعلقات یک طرفہ رہے ہیں۔ ہم ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے کبھی کشمیر پر ہماری حمایت نہیں کی ہے۔ پاکستانیوں کے لیے ان کی ناپسندیدگی کی بنیاد یہ تاریخی مغالطہ ہے کہ اردن کے شاہ حسین کے خلاف ہونے والی بغاوت کے دوران پاکستان نے بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو قتل کیا تھا۔ مئی 2018میں مجھے ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کی بورڈ میٹنگ میں شرکت کے لیے اُردن جانے کاموقع ملا جہاں چیئرمین روز پیروٹ نے بورڈ کے ارکان کی شاہ عبداللہ سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔

میں اس ملاقات میں اردون کے استحکام کے لیے 1970میں پاکستان کے کردار کا تذکرہ کیا جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور پی ایل ایف (پاپولر فرنٹ فور لبریشن آف فلسطین) نے عمان پر قبضہ جمالیا تھا۔ پی ایل او کا ہیڈ کوارٹر ہوٹل انٹرکونٹینینٹل میں تھا۔ اردن پر شام نے بھی فوج کشی کردی تھی۔ اردن کے عربد میں تعینات تھرڈ آرمرڈ ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل قاسم مطاع نے بغاوت کردی تھی۔ ہمارے فوجیوں نے اہم مقامات پر کمانڈ اپنے ہاتھ میں لی اور کئی شاہی تنصیبات کو بچایا اور اس کے ساتھ شاہِ اردن اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا۔ اس دوران فلسطینیوں اور پاکستانیوں کے درمیان ایک گولی بھی نہیں چلی۔ تاہم اردن کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستانی فوجیوں کی جانیں گئیں اور کسی نے اردن کے لیے ایسی قربانی نہیں دی۔ شاہ عبداﷲ نے یہ باتیں بس رواروی ہی میں سنیں لیکن ان کے والد شاہ حسین اور چچا ولی عہد حسن خاص طور پر ہمیشہ پاکستان کے شکرگزار رہے۔ پاکستانیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل محض ایک گڑھی ہوئی داستان ہے۔ بلکہ پاکستان نے اردن کی افواج اور پی ایل او میں جنگ بندی کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا۔ فلسطینیوں نے بعد میں اپنی عسکری اثاثے لبنان منتقل کردئیے جو اس جنت نظیر خطے کی بدقسمتی تھی۔

میں بلا شبہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتا ہوں جن کی وجہ سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ املاک کی تباہی اور جانی نقصان پر مظلوموں کے ساتھ ہمدردی ہونا فطری بات ہے۔ میں ساتھ ہی ’خود کُش دھماکوں‘ کی بھی مذمت کرتا ہوں جن میں بے گناہ اسرائیلیوں کی جانیں گئیں۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور یہ خونیں چکر یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ ہم کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والوں کو ایک ہی سراسر غلط یا پارسا قرار نہیں دے سکتے۔ ہر اسرائیلی صہیونی نہیں اور ہر صہیونی کٹر نہیں ہوتا۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو جمع تفریق کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ اس عالمی تصور کے تحت ہونا چاہیے جس میں رنگ و مذہب اور نام نصب کی تمیز کے بغیر یکجائی کو ترجیح دی گئی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کے قیام کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے لیکن ہمیں اسرائیل کے بطور ملک وجود کا جواز تسلیم کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں اس مسئلے کے مستقبل حل کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئی بڑی قیمت نہیں ہوگی۔