|

وقتِ اشاعت :   June 19 – 2017

کو ئٹہ(آن لائن)بلوچستان اسمبلی میں مالی سال2017-18 کے بجٹ پر عام بحث کر تے ہوئے اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے اگلے مالی سال کے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور ہمیں عوام نے منتخب کرکے اس ایوان میں بھیجا ہے ۔

اس لئے کہ ہم ان کے حقوق کی بات کریں اور مسائل حل کرائیں بلوچستان کے پاس اپنے وسائل کی بہت زیادہ کمی ہے ہمارے اپنے وسائل اور آمدن نہ ہونے کے برابر ہے ہمارے اکثر وسائل مرکز سے ہیں بھلے وہ این ایف سی کی صورت ہوں یا کسی دوسری صورت میں ہماری اپنی آمدن اب تک بمشکل15سے20ارب ہوگی ۔

ہمارے وسائل بہت کم ہیں حالانکہ ہمارا صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے آدھے پاکستان کے برابر ہے اس آدھے پاکستان کو ان موجودہ وسائل میں ترقی دینا بلوچستان کے بس کی بات نہیں وفاق کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے ۔

انہوں نے کہا کہ گیس ، ریکوڈک ، سیندک ، کوئلہ اورکرومائیٹ میں پورا پاکستان خود کو شراکت دار سمجھتا ہے مگر جب بات وسائل کی تقسیم کی آتی ہے تو ہمارے صوبے کو آبادی کے لحاظ سے چند فیصد دے دیئے جاتے ہیں جو بہت بڑی زیادتی ہے آئین کہتا ہے کہ گیس پورے صوبے کو ملنی چاہئے مگر بلوچستان میں آج بھی یہ حالت ہے کہ کوئٹہ سے باہر گیس دستیاب نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں پورا پاکستان اس منصوبے پرخوش اور پاکستان کے دشمن اس منصوبے سے ناخوش ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ہم سی پیک کا حصہ بنیں جس طرح سے وعدہ کیا گیا تھا کہ سب سے پہلے مغربی روٹ پر کام شروع کیاجائے گا۔

آج باقی صوبوں میں سی پیک کے تحت جاری منصوبے مکمل ہونے کو ہیں مگر وفاقی بجٹ جب پیش ہوتا ہے تو بلوچستان میں سی پیک کے تحت کسی منصوبے کے لئے فنڈنہیں رکھے جاتے یہ زیادتی نہیں تو کیا ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ کی طرح بلوچستان کے اگلے مالی سال کے بجٹ کو بھی ہم عوامی بجٹ نہیں کہہ سکتے ۔

انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں کونسی نئی چیز ہے کہ ہم کہیں کہ یہ عوامی بجٹ ہے ایک طرف مرکز ہمیں کچھ نہیں دے رہا اور دوسری طرف آپ اس طرح کا بجٹ بناتے ہیں اس طرح سے تو یہ صوبہ ترقی نہیں کرے گا ہم اس بجٹ کو بلوچستان کی تعمیر و ترقی کا بجٹ نہیں کہہ سکتے ۔

اربوں روپے تعلیم کے لئے رکھے گئے ہیں ہم کہتے ہیں کہ صرف پیسے رکھنا مسئلے کا حل نہیں یہ پیسے تو ایک کلرک بھی رکھ سکتا ہے اصل بات یہ ہے کہ آپ ان پیسوں کو کس طرح سے خرچ کرتے ہیں میں وزیر تعلیم سے پوچھتاہوں کہ روں مالی سال انہوں نے جو اربوں روپے تعلیم کے شعبے میں خرچ کئے کیا ۔

تعلیم کے شعبے میں کوئی بہتری آئی ہے ہم صرف اورصرف بلوچستان کی روایات کی وجہ سے ایسے حالات پیدا نہیں کررہے جس طرح پنجاب اور خیبرپشتونخوا میں اپوزیشن نے پیدا کئے انہوں نے لورالائی سپیرہ راغہ روڈ،دکی لورالائی روڈ کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے کئی جاری منصوبے محکمہ پی اینڈ ڈی کی عدم توجہی کا شکار ہیں ۔

انہوں نے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ پشتون علاقوں کے منصوبوں کو روک کر پشتون علاقوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں یہ خان شہید کا وژن نہیں تھا ان کا وژن یہ تھا کہ پسماندہ پشتون علاقوں کو آباد کرنا ہے چاہے ملا ہو یا مسٹر ترین ہو یا اچکزئی ۔

ہم بھی اقتدار میں رہے ہیں میں گوادر کو بھی اپنا گھر سمجھتا ہوں اور ژوب کو بھی یہی وجہ ہے کہ میں جب ژوب کو کوئی منصوبہ دیتا تو واشک کو بھی دے دیتا مگر آج ایسا نہیں ہے ۔پاکستان مسلم لیگ کے میر عبدالکریم نوشیروانی نے بجٹ کو عوام دوست اور تاریخی بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی تاریخ میں آج تک ایسا بجٹ پیش نہیں ہوا جس پر ہم وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

بلوچستان کی تاریخ میں ٹاؤن اور ڈسٹرکٹ کمیٹیوں کو بیس بیس کروڑ روپے نہیں ملے یہ سب کچھ وزیراعلیٰ کی توجہ سے ممکن ہے انہوں نے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدا راہ وہ پی اینڈ ڈی کا دروازہ خاران کے لئے کھولیں ۔

نیشنل پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر سردار اسلم بزنجو نے کہا کہ یہ کونسی جمہوری روایت ہے کہ ایک بیوروکریٹ اتنے منصوبے ایک یونین کونسل کے لئے لے جاتا ہے اگر بیورو کریسی میں اتنی طاقت ہے تو پھر ہمیں ایوان میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے مخلوط حکومت ہے بیوروکریسی صرف ایک جماعت کی بات نہ مانے بلکہ حکومت میں شامل تمام جماعتوں کو یکساں اہمیت دے ۔

وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ جمہوریت کا حسن اختلاف رائے اور برداشت ہے ہم بہت بڑی قربانیاں دے کر اس ایوان میں آئے ہیں ہمیں انتخابات سے روکنے والی قوتوں نے پورا زور لگایا کہ ہم پارلیمانی سیاست سے دور رہیں مگر ہم قربانیاں دے کر یہاں آئے ہم نے مشکل حالات کا مقابلہ کیا مگر ہم اقتدار کے بھوکے نہیں ۔

اگر ہم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر یہاں اس ایوان میں بھی بات نہیں کریں گے تو ہم کہاں جائیں میر خالد لانگو نے کسی کے خلاف کوئی غلط بات نہیں کی بلکہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کا اظہار اور وزیراعلیٰ کے سامنے اپنے تحفظات پیش کئے مگر لیاقت آغا نے جو الفاظ استعمال کئے وہ نیشنل پارٹی کے لئے ناقابل برداشت ہے ہم اس وقت تک ایوان میں نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ ان الفاظ کا ازالہ نہیں کرتے ہم اس رویئے کے خلاف احتجاجا واک آؤٹ کرتے ہیں ۔

جس پر نیشنل پارٹی کے اراکین نے ان کے ہمراہ ایوان سے واک آؤٹ کیا بعدازاں سپیکر کی ہدایت پر وزیر داخلہ میر سرفرازبگٹی ، سردار عبدالرحمان کھیتران ،میر عاصم کرد گیلو اور منظور کاکڑ نے جا کر انہیں منایا اور ایوان میں واپس لے آئے جس کے بعد پشتونخوا میپ کے پارلیمانی لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے فلور پر کھڑے ہو کرکہا کہ دو دن پہلے قائد ایوان کی موجودگی میں تمام معاملات اور فیصلے ہوگئے تھے اور نیشنل پارٹی کی جانب سے سردار اسلم بزنجو بھی معاملات طے کرنے کے لئے ہمارے ساتھ موجود تھے ۔

اسی لئے اجلاس ہوا کہ جن جن کے تحفظات ہیں ان کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے مگر افسوس کہ بار بار چیزوں کو اچھالا جارہا ہے پارلیمنٹ کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں پارلیمنٹ کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا سید لیاقت آغا نے جو ریمارکس دیئے میں اس پر معافی مانگتا ہوں جو بھی تنقید کررہے ہیں ۔

ان کی بات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے جو لوگ کسی بھی مسئلے کو اچھالتے ہیں ان کو جمہوری انداز میں جواب مل جائے گا ہم کوئی غیر سیاسی طریقہ اختیار نہیں کریں گے ۔ سردار اسلم بزنجو سے سخت شکوہ ہے کہ جو بھی بات ہے وہ شیئر کریں ذمہ داری کا احساس کریں جو غیر ذمہ داری کرے گا اس پراسے سوچنا ہوگا۔

شاہدہ رؤف نے کہا کہ پری بجٹ سیشن اسمبلی کا ہونا چائے بدقسمتی سے نہیں ہوسکا ۔ بجٹ جس طرح سے پیش ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے باتیں ہم بڑی بڑ ی کرتے ہیں لیکن ہمیں اپنی پالیسیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں بجٹ کے حوالے سے باقاعدہ پلاننگ نہیں ہوتی سارا سال ہم بیٹھے رہتے ہیں اورآخر میں ہم اضافی بوجھ ڈالتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم نے دن رات کام کیا ۔

چار سالوں سے اراکین کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی میں پری بجٹ سیشن ہونا چاہئے منصوبہ بندی کو چاہئے تھا کہ وہ ورک شیٹ تیار کرتی اور تمام اراکین کو بھجواتی مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پی اینڈ ڈی کی ترجیحات کچھ اور ہیں ۔

آن گوئنگ سکیمات کے لئے حکومتی اراکین کو چند دن پہلے12کروڑ روپے دیئے گئے دس سے گیارہ مہینے آپ کی حکومت سوئی رہتی ہے آخری ایک مہینے میں دھڑا دھڑ پیسے ریلیز کئے جاتے ہیں یہ کرپشن کا دروازہ ہے یہ من پسند لوگوں کو نوازنے کے طریقے ہیں۔

اس حکومت میں آپ کو مس مینجمنٹ ہر جگہ دیکھنے کو ملے گی اور اس مس مینجمنٹ نے آپ کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے آپ جو خمیازہ بھگت رہے ہیں وہ اسی مس مینجمنٹ کا ہے پی اینڈ ڈی اور فنانس کے محکمے مکمل طور پر نااہل محکمے ہیں جو دس سے گیارہ مہینے پیسوں پر سانپ بن کر بیٹھے رہتے ہیں اور آخری دنوں میں پیسے ریلیز کئے جاتے ہیں پی اینڈ ڈی کی ترجیح لوگوں کو سہولت دینا نہیں ۔

انہوں نے تعلیمی شعبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ یہ حکومت لگاتی ہے دعوے کئے جاتے ہیں کہ بجٹ بڑھادیا گیا ہے مگر حقیقت کچھ اور ہے یہ حکومت جب بنی تو پہلے سال کے بجٹ میں تعلیم کے لئے رکھا گیا بجٹ10فیصد تھا آپ تعلیم کا بجٹ 23سے 10فیصد تک لے آئے ہیں پھر کہتے ہیں کہ ہم نے ہر بچہ سکول میں داخل کرانا ہے ۔

ہم نوحہ کررہے ہوتے ہیں کہ وفاق پیسہ نہیں دے رہا آپ وہ لگا نہیں رہے اور وہ واپس کررہے ہیں ۔انہوں نے وزیراعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے ارد گرد موجود یس مین لوگوں نے بیڑہ غرق کیا ہے ۔

سکولوں میں واش رومز کی سہولت کے لئے رکھے گئے ایک ارب روپے پچھلے سال لیپس ہوگئے تعلیم ہی کے شعبے میں گلوبل پارٹنرشپ ایجوکیشن پروگرام یورپی یونین اور ورلڈ بینک کے مشترکہ کاوشوں سے صوبے میں شروع ہوا ہے اس میں ایک ایماندار افسر تھا اس نے جب کرپشن سے نو کہا تو اسے ہٹادیا گیا حالت صوبے کی یہ ہے کہ ڈونرز کے پیسے کو بھی نہیں چھوڑا جارہا وہ پیسے بھی غریب عوام پر نہیں لگائے جارہے آن گوئنگ کی مد میں بارہ بارہ کروڑ روپے دینا اور آخری دس سے بارہ دنوں میں دینا بہت بڑا سوال ہے ۔

وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری نے ایوان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر گہری تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی اپنی روایات ہیں یہاں کی بلوچ پشتون روایات کا تمام اراکین خیال رکھیں ہمیں اس ایوان میں عوام نے منتخب کرکے بھیجا ہے ہمیں کوئی ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جس سے کسی کی دل آزاری ہو عوامی نمائندوں کا حق ہے ۔

وہ اس ایوان میں بات کریں اپوزیشن لیڈر نے جب تقریر ختم کی تو خود میں نے ڈیسک بجا کر انہیں داد دی حالانکہ انہوں نے ہم پر تنقید کی، تنقید برائے تعمیر ہونی چاہئے ہم ایک ایک بات نوٹ کررہے ہیں اور جب بجٹ پر ہونے والی اس بحث کو سمیٹیں گے تو اراکین کے تمام نکات کا جواب دیا جائے گا۔

انہوں نے اپنی نشست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں 88ء سے یہاں آرہا ہوں اس وقت یہاں نواب اکبر خان بگٹی بیٹھتے تھے ہم اپوزیشن میں تھے مگر اس وقت بھی بلوچستان اسمبلی بلوچستان کی روایات کی پاسدار رہی کسی نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے روایات کی پامالی ہوتی ہو ۔

انہوں نے اراکین پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کی بات صبر و تحمل سے سنیں وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ میرا خاندانی پس منظر اور ہماری تاریخ سب کے سامنے ہے کہ ہم نے گردنیں کٹائیں مگر سر نہیں جھکایا آج جب میں وزیراعلیٰ بنا ہوں تو میں سر نیچے کرکے بات سنتا ہوں صرف اور صرف اس لئے کہ مجھے عوام نے بہت بڑی ذمہ داری دی ہے مجھے اس کا خیال رکھنا چاہئے یہی ذمہ داری تمام اراکین کی ہے وہ اس کا خیال رکھیں ۔

صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ پشتون و بلوچ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں تھے لیکن موجودہ حکومت میں چار سال کے دوران پشتون و بلوچ کو اکھٹا کیا اور امید ہے کہ آئندہ بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا بلوچوں کے ساتھ کبھی بھی تلخی نہیں کریں گے بڑے باپ اور بڑے بھائی کا چھوٹا بیٹا اور بھائی ہوں ۔

جب ڈاکٹر عبدالمالک تربت کے لئے اپنے دور میں پانچ ہزار ملین لے کر گئے تو ہم نے کوئی بات نہیں کی اور ہمیں خوشی ہوئی اور قلعہ عبداللہ کے لئے تین ہزار ملین صرف میرے لئے نہیں بلکہ ہم چار ایم پی اے اور ایک قومی اسمبلی کا ممبر ہے سب کو ان کا حق ملنا چاہئے ۔

مولوی معاذ اللہ نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں اپوزیشن کو ترجیح نہیں دی گئی ضلع موسیٰ خیل پسماندہ ترین علاقہ ہے اس کی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ میر عبدالماجد ابڑونے کہا کہ ہمارا علاقہ بھی بلوچستان میں ہے پچھلے سال جو سکیمات مکمل نہیں ہوئیں وزیراعلیٰ بلوچستان پی اینڈ ڈی کو پابند کریں کہ وہ ان سکیمات کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔