|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2017

خضدار:بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)کے مرکزی سینئر نائب صدر سابق صوبائی وزیر خزانہ سید احسان شاہ نے کہاہے کہ بلوچستان میں مہاجرین کو واپس بھیجے بغیر مردم شماری کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہے بلکہ بلوچ عوام کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی ایک ساز ش ہے ہم سمجھتے ہیں کہ نیشنل پارٹی دیدہ دانستہ طور پر اس سازش میں شریک ہے۔ ڈھائی سالہ دور حکومت میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچ عوام کے گلے پر چھری پھیر کر خود اقتدار پر براجمان رہے ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی ڈھائی سالہ دور حکومت سیاہ باب کے طور یاد رکھا جائیگا کہ جس میں چالیس ارب روپے سے زائد کا کرپشن ہوا ۔ان میں 14ارب روپے کی رقم وزیراعلیٰ کے بقول ان کی اجازت کے بغیر نکالے گئے ۔14ارب روپے ان کی کاہلی اور انااہلی کی وجہ سے لپس ہوگئے۔نیشنل پارٹی کی ڈھائی سالہ دورہ حکومت میں کرپشن کی داستان طویل ہے جو تاریخ بنتی جارہی ہے ۔ ان خیالات کا اظہارا نہوں نے خضدار کے صحافیوں سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ اس سے قبل انہوں نے خضدار پریس کلب کے نومنتخب صدر عبداللہ شاہوانی، اور اس کی پوری کابینہ کو مبارک باد دی۔ بی این پی (عوامی) کے مرکزی سینئر نائب صدر سید احسان شاہ نے کہاکہ بلوچ عوام نیشنل پارٹی کی تاریخی او ربے تحاشا کرپشن سے حیرانگی کے عالم میں ہیں متوسط اور عوامی پارٹی کی سیاست کے دعویداروں نے غریب اور پسے ہوئے طبقہ عوام کی رقم ہڑپ کرکے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ بلوچ عوام کے خیرخواہ نہیں بلکہ پیسے کے پجاری ہیں ۔ بی این پی (عوامی) اس تمام تر کرپشن اور حکومت کی نااہلی پر نظر رکھی ہوئی ہے اور عوام کو ان کی اس کرپشن سے آگاہ کرتی رہیگی ۔ایک جانب چالیس ارب روپے سے زائد کرپشن اور 14ارب روپے کا قومی خزانے سے باہر نکالنا جس کا اظہار نہ صرف اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کررہے ہیں کہ ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر یہ رقم نکالی گئی اور دوسری جانب اس حکومتی کی نااہلی کہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے اور تنازعہ کی صورت میں 14ارب روپے کا لپس ہونا سب ان کی نااہلی کی داستان اور عوام کے ساتھ ناانصافی کی منہ بولتا ثبوت ہے ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں مردم شماری اس صورت میں کامیاب نہیں ہوسکتی ہے جب یہاں افغان مہاجرین موجود ہوں ۔ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ مردم شماری نہ ہو بلکہ ہمارامطالبہ یہ ہے کہ جن 12یا اس سے زائد اضلاع میں افغان مہاجرین موجود ہیں ان میں مردم شماری کوئی چھ سات مہینے تک موخر کی جائے ۔ اگر ایسی صورت میں مردم شماری کی جاتی ہے تو بلوچ عوام اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیگا ۔ جسے ہم کسی صورت میں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔