خان آف قلات میر سلیمان داؤد خان نے بلوچستان میں حالیہ زلزلہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر افسوس کااظہار کیا اور کہا ہے کہ کسی حکومتی عہدیدار سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز اخبارات میں شائع ہونیوالی خبر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ میری لندن میں ڈاکٹر مالک بلوچ سے کوئی ملاقات ہوئی ہے، جو درست نہیں۔ میری کسی سے ملاقات نہیں ہوئی اور ویسے بھی ان حالات میں کوئی کیونکرملاقات کرے گا جب ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں ،گمشدگیوں کا سلسلہ بھی جاری ہو۔ لاشیں گررہی ہوں اور پھر بلوچوں کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال بھی ہورہا ہو۔ چادر و چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہو اور پھر یہ بات تو پہلے ہی طے کرلی گئی تھی جب میری سربراہی میں بلوچ یکجاء ہوئے ۔جب تک حالات کو سازگار نہیں بنایا جاتا، طاقت کے بے دریغ استعمال کو روکا نہیں جاتا اور کوئی عالمی طاقت ضمانت نہیں دیتی تو مذاکرات ممکن نہیں۔ اس طرح کی خبروں سے بلوچ قوم کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا ہم آج بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان اگرچہ لندن سے واپس آچکے ہیں اور آواران کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں تاہم انکی لندن روانگی کے وقت ناراض بلوچ رہنماؤں سے ملاقات اور انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کی خبر اخبارات کی زینت بن گئی تھی جس کی تردید وزیراعلیٰ بلوچستان کے ترجمان نے کردی تھی اور وضاحت کی تھی کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ لند ن صرف اور صرف فیض احمد فیض کی سالگرہ تقریب میں شرکت کی غرض سے جارہے ہیں ،ان کا کسی بھی ناراض بلوچ رہنماء سے ملاقات کرنے کا کوئی پروگرام نہیں۔ خان قلات میر سلیمان داؤد نے بھی انہی افواہوں کی تردید کی ہے۔ نواب اکبر بگٹی شہید نے اگرچہ تمام بلوچوں کوا پنی زندگی کے آخری ایام میں ایک جماعت بنانے کی ترغیب دی تھی لیکن ان کی زندگی میں بلوچ یکجا نہیں ہوئے اور آج بھی بلوچ غیر متحد و منقسم ہیں ۔ہاں انکی شہادت کے بعد اتنا ضرور ہوا کہ خان قلات کی کماشی میں قلات میں بلوچ شاہی جرگہ کے نام سے تمام بلوچ زعماء وقتی طور پر اکٹھے ضرور ہوئے مگر اس کے نتائج بلوچ قوم نے دیکھ بھی لیے اور بھگت بھی رہی ہے ۔بلوچ شاہی جرگہ کی پانچ رکنی سپریم کونسل بنائی گئی جو سردار اختر جان مینگل ،نواب ذوالفقار علی خان مگسی، چیف آف بیرک نواب محمد خان شاہوانی، چیف آف ساراوان نواب محمد اسلم خان رئیسانی اور چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری پر مشتمل تھی۔ بلوچ قوم نے وقتی طور پراس شاہی جرگہ اور اس کی سپریم کونسل سے کافی توقعات وابستہ کرلیں مگر انکی توقعات اس وقت ہوا ہوگئیں جب سپریم کونسل کے تمام اراکین صرف ڈیڑھ سال بعد بلاواسطہ یا بالواسطہ طریقے سے پارلیمانی انتخابات کے ذریعے ایوان کی زینت بن گئے ۔سردار اختر مینگل نے اگرچہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا مگر اپنی جگہ میر عبدالرحمن کوپارلیمنٹ بھیجا ۔نواب محمد خان شاہوانی انتخابات میں ہارنے کے باعث پارلیمنٹ پہنچنے سے رہے۔ نواب اسلم رئیسانی پانچ سال تک وزیراعلیٰ رہے۔ نواب ثناء اللہ زہری نے پانچ سال کا عرصہ صوبائی وزیر کی حیثیت سے گزارا جبکہ نواب ذوالفقار علی مگسی پانچ سال سے کچھ زیادہ وقت تک گورنر بلوچستان کے مسند پر جلوہ افروز رہے۔ خان قلات کے قریبی اعزاء و اقارب بھی پارلیمنٹ کا حصہ رہے۔
نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت ایک بحران سے نکلتی نہیں تو دوسرا بحران اس کا راستہ تک رہا ہوتا ہے، ابھی تو اس نے ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنی تھی کہ یکے بعد دیگرے زلزلوں نے ساری کایا پلٹ دی۔ جن علاقوں میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا سب سے زیادہ اثرورسوخ ہے وہاں زلزلے کی آفات اور اس کے بعد ریلیف کے کاموں میں تساہل نے بلوچ عوام کو مزید بیزاری کی جانب گامزن کردیا ہے۔ صوبائی حکومت سردست ناراض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کے خواب دیکھنے کے بجائے بلوچ زلزلہ متاثرین کی بحالی کو ترجیح دیتے ہوئے انکی دادرسی کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔