|

وقتِ اشاعت :   October 2 – 2013

awaranآواران(آن لائن)بلوچستان میں زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقوں کے رہائشیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور متاثرہ علاقوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ زلزلے سے متاثرہ ضلع آواران کی تحصیل مشکے میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق آلودہ پانی پینے سے متاثرین بیمار پڑ رہے ہیں۔مشکے میں قائم طبی کیمپ میں موجود ڈاکٹر ارشاد بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ آلودہ پانی پینے سے لوگوں میں اسہال اور دست کی بیماری پھیل رہی ہے جب کہ متاثرین خوراک کی کمی کا بھی شکار ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کچھ تنظیموں نے علاقے میں راشن تقسیم کیا ہے لیکن ان میں بچوں اور حاملہ خواتین کی خوراک کا انتظام نہیں ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے سے خصوصی بات چیت میں کہا تھا کہ جلد ہی اقوام متحدہ کے اداروں کو متاثرہ علاقوں تک رسائی دی جائے گی کیونکہ جتنی بڑی تباہی آئی ہے وہ اکیلے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اس کے لیے بین الاقوامی مدد کی بھی ضرورت ہوگی۔مشکے کے قریب سب سے بڑاہسپتال آواران ہے، جہاں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر ہے اور لیبارٹری اور ایکسرے مشین بھی دستیاب نہیں جبکہ پانچ گھنٹے کے اس سفر میں پتھریلی ناہموار سڑکوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ڈاکٹروں کے مطابق یہ سفر حاملہ خواتین کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ڈاکٹر ارشاد کے مطابق علاقے میں ملیریا کے علاوہ سانپ اور بچھو کے کاٹنے کے مریض بھی سامنے آ رہے ہیں کیونکہ لوگ منہدم گھروں کے باہر زمین پر سو رہے ہیں لیکن ابھی تک تریاق کسی بھی علاقے میں دستیاب نہیں۔بولان میڈیکل کالج کے شعب گائنی کی سینیئر میڈیکل افسر ڈاکٹر سعیدہ بھی رضاکار کیمپ میں پہنچی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ علاقے میں حاملہ خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس وقت بھی کیمپ میں تین خواتین موجود ہیں جن کا حمل زلزلے کے باعث ضائع ہوا ہے۔ڈاکٹر سعیدہ کے مطابق ان کے پاس کئی حاملہ خواتین آ رہی ہیں تاہم الٹراساؤنڈ کے بغیر وہ تشخیص نہیں کر پا رہیں۔خیال رہے کہ مشکے میں ڈاکٹروں نے رضاکارانہ طور پر کیمپ لگایا ہے، جہاں بیڈ بھی دستیاب نہیں اور مریضوں کو پتھریلی زمین پر چٹائی پر لٹا کر طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ادھر متاثرین میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔ بچوں کے لیے امداد فراہم کرنے والا اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسیف اور امدادی تنظیم سیو دی چلڈرن تاحال اس علاقے میں حکومت کی جانب سے رسائی دیے جانے کے منتظر ہیں۔