آواران میں پاکستان کی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ ہے زلزلہ سے اموات کی تعداد معلوم ہونا مشکل ہے کیونکہ متاثرین نے خود ہی زخمی اور ہلاک شدگان کو ملبے سے نکالا اور ان کو دفن کردیا اور زخمیوں کو ہسپتال بھی نہیں پہنچا سکے چونکہ سرکاری اہلکاروں اور امداد فراہم کرنے والے اداروں کا کوئی کردار نہیں تھا اس لئے یہ کبھی بھی معلوم نہیں ہوسکے گا کہ کتنی اموات ہوئیں ٹی وی فوٹیج میں کوئی سرکاری اہلکار لوگوں کی مدد کیلئے نظر نہیں آیا صرف عورتیں اور بچے ہی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں جبکہ ایف سی اور انتظامیہ دو الگ الگ طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں اس میں پانچ روز کی تاخیر ہوگئی دوسرے الفاظ میں شدید ترین زخمی لوگ بھی اس دنیا سے چل بسے ان کو کسی قسم کی طبی امداد نہ مل سکی مجھے یاد ہے کہ آزاد کشمیر اور زیارت کے زلزلوں میں امدادی کارروائیاں صرف چند گھنٹوں میں شروع ہوگئی تھیں جبکہ آواران، مشکے، ڈنڈار اور گشکور کے علاقے میں امدادی کارروائیوں میں چھ دن بعد تیزی آئی آواران کوئی دور دراز کا علاقہ نہیں ہے کراچی سے چند گھنٹے کے فاصلے پر ہے وہاں پر انسانی جانوں کو بچانے کا کام تیزی سے ہوسکتا تھا اور گھنٹوں میں شروع ہوسکتا تھا چونکہ بلوچستان اس ملک کا سب سے لاوارث صوبہ ہے یہاں کے نمائندہ حکومت کی کوئی نہیں سنتا وزیراعلیٰ بذات خود مقامی معاملات کو طے کرنے کیلئے گزشتہ پانچ دنوں سے آواران میں مقیم ہیں اور سرکاری اداروں میں تصفیہ کرا رہے ہیں سب سے زیادہ ظلم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ پوری ریاست اور اس کی وسیع وعریض مشینری انسانی جانوں کو بچانے آج دن تک آواران، مشکے، ڈنڈار اور گشکور نہیں پہنچی لوگوں نے خود اپنے مردے ملبے تلے سے نکالے اور ان کو دفن بھی کیا اس دوران چار دینی مدارس کی عمارات بھی منہدم ہوگئیں اور ان میں 70سے زائد طلباء اور طالبات شہید ہوئے ان کی لاشیں بھی مقامی لوگوں نے نکالیں اور ان کو دفن کردیا کوئی ایک سرکاری اہلکار نظر نہیں آیا سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست نے کبھی بھی پی ڈی ایم اے یا این ڈی ایم اے کو ایک موثر ادارہ نہیں بنایا جو قدرتی آفات میں کسی حد تک کار آمد ثابت ہوتا بلوچستان قدرتی آفات کا گھرہے گزشتہ 10سالوں میں بلوچستان میں آٹھ بڑے قدرتی آفات نے تباہی مچائی مگر پی ڈی ایم اے کو صرف فوڈ پیکٹ، کمبل اور خیمے جمع کرنے پر لگا دیا گیا ہے سب سے اہم ترین کام انسانی جانیں بچانا ہے ان کو طبی سہولیات فراہم کرنا ہے وہی کام نہیں کیا گیا اور نہ کرنے کا ارادہ ہے، اتنی بڑی آبادی کو زلزلہ کے بعد طبی امداد نہ پہنچانا غفلت نہیں بلکہ بے حسی ہے اور انسان دوستی نہیں ہے وجہ یہ کہ ابھی کوئی باقاعدہ ڈھانچہ ہی نہیں بنایا گیا نہ ہی پولیس، لیویز اور بی سی کو اس بات کی تربیت دی گئی کہ قدرتی آفات میں لوگوں کی جانیں کس طرح بچائی جاسکتی ہیں ایف سی اور فوج تو وفاق کی ماتحت ہیں ان کو پہنچنے میں دن لگ گئے اگر مقامی اور صوبائی ادارے تیار ہوتے تو انسانی جانوں کا ضیاع کم سے کم ہوسکتا ہے اب بھی بعض اہم ترین حکمران اس بات کیخلاف ہیں کہ بین الاقوامی امداد آفت زدہ لوگوں کو ملے خصوصاً زخمیوں کا علاج، بچے بوڑھے اور عورتوں کیلئے خوراک ان کے لئے خیمے، اگر حکومت پاکستان بین الاقوامی برادری سے اپیل کرے تو ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر سے رضا کار پہنچ جائیں گے اور امدادی کارروائیا ں فوراً شروع کردیں گے آفت زدہ علاقوں میں ایک تبدیلی نظر آئے گی اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ آزاد کشمیر کے زلزلے میں اربوں ڈالر کی امداد اور رضا کار آسکتے ہیں لیکن بلوچ آفت زدگان کیلئے نہیں کیا وہ پاکستان کے شہری نہیں ہیں یہاں دہرا معیار نہیں ہونا چاہیے سیاست کو چھوڑ کر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حکومت پاکستان ہر قسم کی بین الاقوامی امداد کی اپیل کرے تاکہ ایران، سعودی عربیہ، عرب امارات، کویت، بحرین، قطر اور دیگر مغربی ممالک بشمول اقوام متحدہ سے امداد آئے اور لوگوں میں منصفانہ بنیاد پر تقسیم ہو ترکی اور ایران کی حکومتوں سے توقع ہے کہ وہ کئی ایک فیلڈ ہسپتال قائم کریں گے۔