حکومت نے آخر کار یہ فیصلہ بھی کر ہی لیا کہ 31قومی اثاثوں کو بڑے بڑے مگر مچھوں کے ہاتھ نیلام کیا جائیگا جیسا کہ گزشتہ سالوں پی ٹی سی ایل اور تمام بینک نیلام کردیئے گئے ہیں وہ بھی کوڑیوں کے دام، ہر بینک اربوں روپے منافع کما رہا تھا پی ٹی سی ایل سالانہ20ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع کرا رہا تھا ان کو کوڑیوں کے دام عوام دشمن تاجروں اور نئے دولت مندوں کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا جس غیر ملکی ادارے نے پی ٹی سی ایل خریدا اس نے ابھی تک قیمت کے 80کروڑ ڈالر حکومت پاکستان کو ادا نہیں کئے ہیں نجکاری کے عمل میں شفافیت کہاں گئی؟ ریاست کا پیسہ کیوں وصول نہیں کیا گیا اس بار جو قومی اثاثے عوام دشمن ٹائی کون (Tycons) کو فروخت ہونگے ان میں پی آئی اے، پاکستان ریلویز، پاکستان اسٹیل، ملک کی چار بڑی گیس کمپنیاں شامل ہیں ان میں سے او جی ڈی سی ایل سالانہ90ارب روپے منافع کما رہی ہے پی پی ایل 50ارب روپے منافع کما رہی ہے اسی طرح دو دوسری گیس کمپنیاں بھی منافع کما رہی ہیں لہٰذا ان کی نجکاری جائز نہیں بلکہ عوام دشمنی ہے پاکستان ریلویز اور پی آئی اے عوامی خدمت کے ادارے ہیں ان کو کسی حالت میں مگر مچھوں کے حوالے نہیں کرنا چاہیے نجکاری کے عمل سے دولت مندوں کو فائدہ اور بلوچستان کو بہت نقصان پہنچا، جب تک یہ ادارے ریاست کے ہیں ان میں بلوچستان کا حصہ واضح ہے جب یہ ادارے دولت مند تاجروں کے حوالے کئے جائیں گے تو یہ ذاتی ملکیت ہونگے وہ آتے ہی ملازموں کو روزگار سے برطرف کردیتے ہیں پی ٹی سی ایل نے بلوچستان میں یہی کچھ کیا پی ٹی سی ایل نے جتنے بھی دفاتر اور مواصلاتی نظام بنائے وہ حکومت بلوچستان کے اثاثے تھے اور اب وہ نجی کمپنی کے اثاثے بن گئے اس پر اب بلوچستان اور اس کے عوام کا کوئی کلیم نہیں رہا اتنے سال گزرنے کے بعد عوام الناس کی سہولیات میں اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ صرف چند افراد سے پورا نظام چلانے کی کوششیں کرتے رہے صارفین کی شکایات بڑھ گئی ہیں دوسری طرف ریلوے کی نجکاری کا مطلب یہ ہے کہ کھربوں روپے کی زمین جو صوبائی حکومتوں نے پاکستان ریلویز کو فراہم کی تھی وہ بعد میں سیٹھ صاحب کی ملکیت ہوگی پاکستان ریلویز کے چارٹر میں صاف اور واضح طور پر درج ہے کہ حکومت بلوچستان نے یہ زمین پاکستان ریلویز کو مفت فراہم کی ہے تاکہ وہ لوگوں کو سفر کی سہولیات فراہم کرے اگر پاکستان ریلویز کو زمین کی ضرورت نہیں ہے تو وہ دوبارہ بلوچستان حکومت یا صوبائی حکومتوں کو لوٹا دی جائیں پاکستان ریلوے یا وفاقی حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ریلویز کے زیر استعمال زمین فروخت کردے پاکستان ریلویز اور وفاق کے تمام ادارے ان زمینوں کے مالک نہیں ہیں وہ ان کو فروخت نہیں کرسکتے اگر کوئی ایسی زمین جس کی مالک صوبائی حکومت ہے خریدتی ہے اس کی ذمہ دار خود ہے حکومت بلوچستان کو وہ زمین واگزار کرنے کا پورا اختیار ہے دوسری جانب پی آئی اے بلوچستان میں قابل قدر سفری سہولیات فراہم کرتی رہی ہے نجی کمپنی یہ سفری سہولیات کیوں فراہم کرے جبکہ اس کا مقصد صرف منافع کمانا ہے ملک اور عوام بھاڑ میں جائیں پی آئی اے کی موجودہ حیثیت میں بلوچستان کا کچھ حصہ ضرور ہے نجکاری کے بعد یہ سب خاک میں مل جائیگا بلوچستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ گیس کمپنیوں کی نجکاری ہے ان چاروں گیس کمپنیوں نے بلوچستان کے قدرتی وسائل کو استعمال میں لاکر ترقی کی ہے اس میں کسی دوسرے صوبے کا کوئی حصہ نہیں ہے حالیہ دنوں میں چند ایک گیس کے ذخائر کے پی کے اور سندھ میں دریافت ہوئے مگر سوئی گیس نے پورے پاکستان کی معیشت کو 55سال تک سہارا دیا ہے اس کے برعکس صرف تین اضلاع کو گیس کی سہولیات فراہم کی گئی چند ارب روپے گیس کی آمدنی سے بلوچستان کو سالانہ دیئے جارہے ہیں ملازمتوں پر مہاجروں اور پنجابیوں کا 55سالوں سے قبضہ ہے نہ بلوچستان کو گیس فراہم کی گئی اور نہ ہی گیس کی آمدنی سے جائز حصہ بلوچستان کو ملا آزاد ماہرین معاشیات کے مطابق وفاق کو ہر سال بلوچستان کو تین ارب ڈالر دینے چاہئیں گزشتہ 55سالوں میں یہ رقم 165ارب ڈالر ہے جو تاریخ کے کسی موڑ پر پاکستان کی حکومت کو ادا کرنی پڑے گی اب اگر یہ کمپنیاں عوام دشمن تاجروں کو نیلام کردی گئیں تو وہ بلوچستان کی آمدنی بند کردیں گے اور گیس کی سپلائی بھی بند کردیں گے بے نظیر کے دوسرے دور میں وفاق نے پی پی ایل کو ایک بڑے مالدار اور سیٹھ کے ہاتھ فروخت کرنے کی کوشش کی جس پر قیامت برپا ہوگئی حکومت بلوچستان اور عوام الناس نے اس کی بھر پور مخالفت کی اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب ذوالفقار مگسی پی پی ایل کے تمام حصص خریدنے کی پیشکش کی اور ساتھ ہی یہ بھی دھمکی دی کہ اگر بلوچستان اور اس کے مفادات کے برعکس کوئی فیصلہ کیا گیا تو صوبائی حکومت سوئی گیس پر اپنا ٹیکس عائد کرے گی اور اس کو (Well Head) پر وصول کرے گی چونکہ اس پر زبردست مزاحمت کی گئی اس بار ماحول زیادہ کشیدہ ہے گیس کی پائپ لائن پر مزاحمت کاروں کے علاوہ ہر آدمی حملہ کرسکتا ہے اور گیس کی ترسیل کو روک سکتا ہے اس لئے حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ وہ ایسا کام نہ کرے جس میں ملک کی بربادی اور تباہی کا عمل تیز ہو۔