بلوچستان نیشنل فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے آج بلوچستان بھر میں پہیہ جام و شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ زلزلہ متاثرین کو ریاستی فورسز محصور کرکے نقل مکانی پر مجبور کررہی ہے ۔ مرکزی ترجمان کا کہنا ہے کہ مشکے ‘ آواران کے کئی قصبہ جات کو فورسز کی جانب سے محصور کرنے اور امدادی کاموں کو روکنے کیخلاف آج 20اکتوبر کے روز بلوچستان بھرمیں مکمل ہڑتال ہوگی ۔ قوم سے اپیل ہے کہ وہ زلزلہ متاثرین پر جاری ریاستی مظالم کے خلاف ہڑتال کو کامیاب بنائیں۔ ترجمان نے کہا کہ متاثرین پر جبر و تشدد کے جاری سلسلے میں تیزی لائی جارہی ہے اور مشکے مکمل ریاستی فورسز کے حصار میں ہے اور گجر سمیت کئی دیہاتوں سے لوگ امدادی کاموں کو روکنے اور امداد نہ ملنے کے باعث نقل مکانی کر چکے ہیں ۔ متاثرہ علاقوں کو کسی بھی قسم کی آمد و رفت کے لئے نوگو ایریا بنا دیا گیا ہے ۔ متاثرین پر فورسز کے گھیراؤ کو ختم نہ کیا گیا تو بی این ایف چند روز میں انتہائی سخت فیصلے کرے گی ۔ آواران اور متاثرہ علاقوں میں زلزلے کی آمد اور اس کے نتیجے میں ہولناک تباہیوں کو آئے مہینہ ہوچکا ہے ۔ وسیع رقبے پر پھیلے مختصر سی آبادی کی بحالی ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے لئے اتنا مشکل کام نہیں ۔زلزلہ متاثرہ علاقوں میں موجود دس ہزار سے زائد فورسز کے اہلکار اگر ایک دن میں صرف دس ہزار لوگوں کی دادرسی بھی کر لیتے تو اس وقت تین لاکھ کی آبادی کو نہ صرف امداد کی فراہمی یقینی بنائی جاتی بلکہ ان کی بحالی بھی ہوچکی ہوتی ۔ اگر ریاست ایک مہینے میں ا پنے تین لاکھ متاثرین کی دل جوئی کے اسباب مہیا کرنے کے قابل نہیں تو غیر ملکی امدادی اداروں کو ان متاثرہ علاقوں تک رسائی دی جاتی تاکہ آفت زدہ علاقے کے عوام عیدالاضحیٰ کی خوشیوں میں اپنے دکھ درد بھلا کر شریک ہونے کے قابل ہوجاتے۔ لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ ریاست اور اس کے اداروں کو زلزلہ زدہ بلوچوں کی داد رسی اور ان کی بحالی سے چنداں دلچسپی نہیں ۔ ان کی ترجیحات شاید کچھ اور ہی ہوں تب ہی بلوچ قوم پرست اور علیحدگی پسند قوتوں کے بیانات پر یقین کرنا پڑ رہاہے ۔ عید سے کچھ روز قبل ایک نجی ٹی وی پر زلزلہ متاثرہ علاقوں کی خواتین کے انٹر ویوز اور تاثرات ہی اگر ارباب بست و کشاد دیکھ لیں تو ان کے سامنے حقیقت ننگی ہوکر آجائے گی اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان متاثرہ عورتوں کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی امداد نہیں پہنچی اورہمیں امداد کی امید بھی نہیں، ہم اپنی مدد آپ کے تحت اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں ۔ متاثرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جہاں جہاں ریاستی امداد مل رہی ہے تو وہ بھی اس شرط پر کہ ریاستی اہلکار امداد دیتے وقت متاثرین سے ’’ پاکستان زندہ باد ‘‘ نعرے لگوا کر ہی امداد دیتے ہیں جو متاثرین کی دادرسی کی بجائے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔ حالانکہ ان متاثرین کا بلوچ مزاحمتی قوتوں سے کوئی تعلق ہے نہ ہی وہ ان مزاحمتی قوتوں کے منشور و مقاصد سے آشنا ہیں ۔ اور ضروری بھی نہیں کہ ہر بلوچ ریاست مخالف ہو ۔ ایک ایسے وقت میں جب ان متاثرین کی تمام جمع پونجی زلزلے کی نذر ہوچکی ہے ۔ ان کی ہرشکایت کوسنتے ہوئے ان کو امداد بہم پہنچائی جائے مگر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہاں بھی امداد اگر کہیں ملتی ہے تو اس شرط پر کہ زندہ باد کے نعرے لگائے جائیں ۔ریاستی ادارے اپنی امداد کو نعرے بازی سے مشروط کرنے کی مجاز ہیں کیونکہ جہاں زلزلہ آیا ہے وہاں کوئی رانا ‘ چوہدری، مہر ‘میاں کا مکان زمین بوس نہیں ہوا ۔زلزلہ کے باعث مرنے والوں میں سے کسی ایک کی لاش چیچو کی ملیاں ‘ چیچہ وطنی ‘ چکوال نہیں گئی ۔ اور زلزلہ میں زخمی ہونے والوں میں سے کوئی بھی پاکستان کے کسی ملٹری کمبائنڈ ہسپتال میں زیر علاج نہیں تو امداد فراہم کرنے والے اہلکار کیونکر ان متاثرین سے ہمدردی جتانے کی زحمت گوارا کریں جبکہ زلزلہ میں مرنے والے بلوچی زبان بولنے والے تھے ۔ اس آفت کے نتیجے میں گرنے والے مکانات بلوچوں کے تھے اور زخمی ہونے والے اور کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے والے بھی بلوچ ہیں ۔ ریاست کی جملہ ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے جغرافیائی حدود میں گزر بسر کرنے والوں کی دادرسی نسلی ولسانی امتیاز سے بالا ترہو کر کرے۔