آخر کار بلوچستان میں کابینہ بن ہی گئی بلکہ کابینہ میں بڑی توسیع کی گئی اور گیارہ نئے وزیروں کو قلمدان سونپ دیئے گئے ان وزراء کا تعلق نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ کے دو دھڑوں سے تھا تیسری پارٹی پی ایم اے پی نے ابھی تک اپنے وزیروں کو نامزد نہیں کیا شاید ان کی اندرونی مشکلات ہوں ورنہ پارٹی تین مزید وزیر نامزد کرنے میں دیر نہیں کرسکتی اس سے قبل اپنے وزیروں کو نامزد کرے وہ پہلے اندرونی مشکلات کا حل تلاش کرے گی تاکہ یکسوئی کے ساتھ وزارت کی ذمہ داریاں سنبھالیں ان مشکلات میں سرفہرست وزیروں کا چناو اور ان میں قلمدان کی تقسیم، بلوچستان میں حالیہ سیاست کے دور میں ہر وزیر کی یہ خواہش رہی ہے کہ اسکو ’’اچھی سے اچھی‘‘ وزارت ملے تاکہ وہ لوگوں کی ’’بھر پور انداز میں خدمت کرسکے‘‘ یہ سعادت صرف طاقتور اور بااثر شخصیات کے حصے میں آئی ہے ان وزراء صاحبان نے بلوچستان پر بھر پور حکمرانی کی ہے اور کبھی بھی ان کو احتسابی عمل سے نہیں گزرنا پڑا بلکہ انکی اپنی پارٹی کے اندر بھی ان کا احتساب نہ ہوسکا اس طرح صوبائی خزانہ کو زبردست نقصان پہنچایا گیا اگر ہم گزشتہ 20سالوں کی کارکردگی کو دیکھیں تو ہمیں کوئی قابل ذکر منصوبہ نظر نہیں آتا جبکہ تمام قابل ذکر منصوبے وفاق نے بنائے اور مکمل کئے اس میں صوبائی حکومت کا عمل دخل نہیں تھا اس کی واضح مثال منصوبہ بندی اور ترقیات کا محکمہ ہے جو گزشتہ چار حکومتوں میں جمعیت علمائے اسلام کے پاس رہا ان کے تمام وزراء معاشیات اور ترقی کے الف اور ب سے بھی واقف نہیں تھے اور انہوں نے ملکی دولت کو ضائع کیا خصوصاً چھوٹی اور معاشی طور پر غیر اہم منصوبوں پر، جے یوآئی کی ساری سیاست کا محور گزشتہ چار حکومتوں میں پی ایس ڈی پی رہی ان کی یہ کوشش رہی کہ سارے صوبے کے فنڈز ان کے حلقوں پر خرچ ہوں ان کا دوسرا محکمہ بی ڈی اے اسکیم خریدنے پر لگا رہا ایک وقت بی ڈی اے کا بجٹ حکومت بلوچستان کی مجموعی ترقیاتی بجٹ سے زیادہ تھا اس وقت صرف 35ارب تھا جبکہ بلوچستان کا ترقیاتی بجٹ 32ارب روپے تھا بہرحال جے یو آئی کے وزیر اسکیموں کی خرید وفروخت میں لگے رہے شاید کسی دور میں ان سب کارستانیوں کا احتساب ہو بہرحال کابینہ میں مزید توسیع پختونخوا کے وزیروں اور انکے قلمدانوں کے فیصلے کے بعد ہوگی بعض حلقے خصوصاً میڈیا نے غیر ضروری بلکہ جان بوجھ کر وزیر اعلیٰ کو نشانہ بنایا کہ وہ مہینوں میں بھی اپنی کابینہ مکمل نہ کرسکے حقیقت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ اتحادی پارٹیوں کے فیصلوں کے تابع تھے اور ہیں وہ اپنی مرضی سے وزراء کا انتخاب اور ان میں محکموں کی تقسیم خود نہیں کرسکتے تھے محکموں کا فیصلہ بھی اتحادی پارٹیوں نے مہینوں بعد کیا اس طرح وزارتوں کا معاملہ اس کے بعد طے ہوا میڈیا کے افراد بلوچستان کی موجودہ سیاسی پیچ وخم سے واقف نہیں کہ وزیراعلیٰ بعض معاملات میں بے دست وپا ہیں اس لئے سارا الزام وزیراعلیٰ پر ڈالنا حقائق کے منافی ہے دل چسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومتوں میں تقریباً سارے ارکان اسمبلی وزیر تھے اور حکومت کے خزانے سے تنخواہ اور مراعات وصول کرتے تھے خصوصاً جام یوسف اور نواب اسلم رئیسانی کی حکومتوں میں تو وزیراعلیٰ نے تمام کابینہ کے ارکان کو مکمل خود مختاری دی تھی یہاں تک کہ وزیراعلیٰ بھی ان کے محکموں میں مداخلت نہیں کرسکتا بشمول بدعنوانی تک کو نہیں روک سکتا تھا دوسری بات یہ تھی کہ اس وقت 18ویں آئینی ترمیم نہیں تھی یہ ترمیم نواب رئیسانی کے دور حکومت میں پاس ہوئی تھی مگر نواب صاحب نے صدر اور وزیراعظم کے ذریعے اس قانونی شق پر عملدرآمد روک دیا تھا اور آئندہ الیکشن کے بعد اس کو لاگو کردیا گیا اس کی رو سے ایک تہائی ارکان کابینہ کے ارکان وزیر ہوں گے باقی دو تہائی ارکان وزیر نہیں بن سکیں گے اس لئے موجودہ حکومت کو صرف 20وزراء اور مشیر لینے پڑیں گے اور 40سے زائد ارکان وزارتوں سے محروم رہیں گے ظاہر ہے کہ کچھ ارکان نے کروڑوں روپے الیکشن میں خرچ کئے تھے اور اس امید پر کہ وہ وزیر بن کرزیادہ کمائیں گے شاید موجودہ سیاسی اور سیکورٹی کی صورتحال میں یہ سب کچھ ممکن نہ ہو، پختونخوا کے اختلافات منظر عام پر نہیں آئے ظاہر ہے ہر ایم پی اے کی خواہش ہوگی کہ وہ وزیر بنے نہ صرف وزیر بنے بلکہ اچھی سے اچھی وزارت بھی ملے تاکہ وہ لوگوں کی ’’خدمت‘‘ کرسکیں چونکہ وزارت کے طالب سب ہیں اس لئے پارٹی اپنے نمائندے وزارتی کونسل کے لئے نامزد نہ کرسکی اس لئے گنجائش موجود ہے کہ کابینہ میں مزید توسیع ہوگی جب پختونخوا اپنی اندرونی مشکلات پر قابو پالے گی دوسری جانب عوام الناس کو اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے کہ کون وزیر بنتا ہے اور کس کو کون سی وزارت ملتی لوگ حکومت اور انفرادی طور پر پارٹی اور وزیروں کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے کہ کتنی کرپشن کی اور کون صاف ستھرا نکلا کس نے اپنے حلقہ انتخاب اور مجموعی طور پر بلوچستان کے عوام کی کیا خدمت کی ہے حکومت سازی تقریباً مکمل ہوگئی ہے اور لوگوں کی توقعات بہت زیادہ ہیں کہ قوم پرست مسلم لیگ کی موجودگی میں زیادہ اچھی خدمت کریں گے موجودہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج امن کی بحالی ہے گمشدہ افراد کی بازیابی، مزید لوگوں کے اغواء کو سرکاری طور پر روکنا، ایف سی اور دوسرے فوجی دستوں کو امن کے زمانے میں واپس لے جانا بلکہ ان کو بیرکوں اور ایران اور افغان سرحد پر سیکورٹی کو زیادہ مضبوط بنانا، ان تمام سرکاری اہلکاروں کو قانون اور آئین کے مطابق شہری حکومت کے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنا، اس کے ساتھ ہی بلوچستان ایک انتہائی پسماندہ صوبہ ہے جہاں پر 65فی صد آبادی غریبی کی لکیر سے نیچے رہتی ہے صوبے میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، کرپشن کو روکنا کیونکہ کرپشن کے حوالے سے بلوچستان بہت ہی بدنام صوبہ ہے جس پر پی ایس ڈی پی کے 30سالہ اخراجات کہیں نظر نہیں آتے آخری بات یہ ہے کہ وزیروں کو قانون کا پابند بنانا کہ ہ محکمے میں بے جامداخلت نہ کریں محکموں کے سربراہوں کو وزیر کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ صرف کابینہ اپنے اجلاس افسران کا احتساب کرے یہی قانون ہے اس پر عمل کیا جائے۔