عیدالاضحیٰ گزر بھی گئی ۔ ملک سمیت دنیا بھر میں بڑے عقیدت و احترام سے عید کی خوشیاں منائی گئیں مگر بلوچستان کے ضلع آواران میں عید کے موقع پر بھی زلزلہ متاثرین کے چہروں پر غم والم کے آثار نمایاں رہے ۔ نئے کپڑوں اور جوتوں کی بات تو رہی دور، متاثرین آج بھی روٹی ‘ پینے کے صاف پانی ‘ ادویات اور سر چھپانے کے لئے سائبان سے محروم ہیں ۔ مشکے اور آواران کے متاثرین ایک مہینہ گزرنے کے بعد عید کے پر مسرت موقع پر خوشیاں منانے کی بجائے اپنے پیاروں کی قبروں پر نظر آئے جو 24ستمبر کو آنے والے زلزلے میں ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے تھے ۔ دنیا بھر میں لوگ عید کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے وہاں بلوچ زلزلہ متاثرین کی مشکلات جوں کی توں رہیں ۔ متاثرین اپنے ٹوٹے ہوئے مکانات اور زندگی بھر کی جمع پونجی کے لٹ جانے کا دکھ دل میں لیے غم‘ اور بے بسی کی تصویر بنے رہے بلکہ عید کی خوشیوں نے ان کے غم تازہ کر دئیے۔ انہیں یوں محسوس ہوا کہ 16اکتوبر کو عیدالاضحیٰ نہیں منائی جارہی بلکہ ان کے کچے مکانات کو مسمار کیاجارہا ہے ۔ قربانی کے بکرے قربان نہیں ہورہے بلکہ ان کے ارمانوں کا گلہ کاٹا جارہا ہے اور گلی محلوں میں بہنے والا خون قربانی کے ذبح کا نہیں ان کی خوشیوں کا خون ہے ۔
حکومتی دعوؤں نے ان متاثرین کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، وہ اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ سنت ابراہیمی پر عمل پیرا حکام کی جانب سے شاید انہیں کچھ امداد مل جائے تاکہ وہ دوبارہ اپنی زندگی کی طرف لوٹ آئیں مگر امیدیں کب برآتی ہیں۔ اور پھر امید کرنے والے جب بلوچ ہوں تو ان امیدوں کی کون برآری کی جسارت کر سکتا ہے ۔ آواران میں تو زلزلہ ایک ماہ قبل آیا جبکہ ماشکیل میں جو آواران کے پاس ہی ہے ۔ اپریل 2013میں زلزلہ آیا تھا اس زلزلے کے متاثرین کی کتنی داد رسی ہوسکی ؟ کیا وہ بحال ہوپائے ؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آواران کے متاثرین بھی فراموش کیے جائیں گے۔ بحران در بحران کے شکار ملک میں کوئی اور بڑا سانحہ رونما ہوتے ہی حکومتی توجہ اس جانب سے ہٹ جائے گی اور آواران اور مشکے کا زلزلہ قصہ پارینہ بن کے رہ جائے گا۔بلوچ زلزلہ متاثرین اپنے گرے ہوئے گھروندے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کرنے کی کوشش کریں تو بہتر ہے صوبائی کابینہ کا حجم بھی اس بار گزشتہ دور کی بہ نسبت انتہائی کم ہے ۔ ان کی دادرسی کرنے اب کے کوئی وزیر نہیں آئے گا۔ عالمی امدادی اداروں کے لئے تو دروازہ پہلے ہی بند ہوچکے ہیں ۔