’’لاپتہ افراد کا معاملہ اب سنگین ہوچکا ہے‘‘ یہ الفاظ اب ایسے لگتا ہے کہ روایتی جملے میں شمار ہونے لگا ہے۔ سپریم کورٹ ہر سماعت کے دوران لاپتہ افراد کو پیش کرنے کا حکم دے رہی ہے جبکہ وزیردفاع بار بار مہلت مانگ رہا ہے۔ لاپتہ افراد کس کے پاس ہیں یہ بات اب زبان زدعام ہوچکی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان بھی اس بات کااقرار کرچکے ہیں کہ لاپتہ افراد کن کے پاس ہیں مگر اُن کی بازیابی کے حوالے سے حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جارہے جو قابل تشویش ہے کیونکہ لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کی وجہ سے بلوچستان کے حالات انتہائی خراب ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اُن کی بازیابی کے حوالے سے مؤثر کردار ادا کرے۔ پہلی بار جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور انتخابات کے بعد دوسری منتخب حکومت آئی جسے ہر سطح پر سراہاگیا ۔ مگر جمہوری اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس بات پر بھی کامل یقین رکھیں کہ تمام ادارے قانون کے ماتحت کام کرتے ہیں اور قانون سازی پارلیمنٹ کرتی ہے جو سب سے سپریم ادارہ ہے مگر اب تک لا پتہ افراد کے مسئلے سے ایسے لگتا ہے کہ قانون کس کے ماتحت ہے، ’ادارے قانون کے‘ یا’ قانون اداروں کے‘ عوامی حکومت کی اولین ترجیح قانون کی بالادستی ہے جو عام لوگوں کو ریلیف اور انصاف فراہم کرسکے مگر گزشتہ دو ادوار میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ جو ناانصافیاں کی گئیں اسے کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پرویز مشرف نے حکومت سنبھالتے ہی بلوچستان کے عوام سے معافی مانگی مگر اس کے بعد بلوچستان کے قدآور شخصیت اور پاکستانی سیاست کے اہم کردار نواب اکبرخان بگٹی کو شہید کیا گیا، اس کے بعد سیاسی لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ چل نکلام، رہی سہی کسر زرداری حکومت نے پوری کردی۔ انہوں نے بھی حسبِ روایت منتخب ہوکر بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر معافی مانگی، پھر ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کے بجائے لاپتہ افراد کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ اُن کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں سے ملنا شروع ہوگئیں۔ نواز شریف منتخب ہوکر آئے انہوں نے بلوچستان کے عوام سے معافی تو نہیں مانگی بلکہ ظلم وزیادتیوں کے ازالے کے عزم کا اظہار کیا۔ بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے انہوں نے ترقیاتی منصوبے شروع کئے مگر سب سے پہلے جو اہم مسئلہ بلوچستان میں موجود ہے وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کاہے جسے فوری طور پروزیراعظم کو حل کرنا چاہئے کیونکہ بلوچستان کے حالات بہتر کرنے کے لئے یہاں کے عوام کے دلوں کو جیتنا ضروری ہے ۔آج جو لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے حوالے سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں، آئے روز احتجاج کرتے ہیں، کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ کیا، اس سے قبل اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بھی بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا مگراُن کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ آج بھی لاپتہ افراد کے لواحقین کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں اور انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ اگر ہمارے پیارے بازیاب نہیں ہوئے تو ہم کراچی سے اسلام آباد تک مارچ کرینگے اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ وفاقی وصوبائی حکومت کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کو قائم رکھتے ہوئے لاپتہ افراد کو بازیاب کرائے اور اس بات کا ثبوت دیں کہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اس کے وقار پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ لاپتہ افراد کے لواحقین ہر بار اس بات کو دہراتے ہیں کہ اگر اُن کے عزیزواقارب نے کچھ کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیاجائے اور اُن پر کیس چلایا جائے مگر انہیں منظر عام پر لایا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے جو وعدہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ کیا ہے اسے پورا کرینگے ، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بناتے ہوئے انصاف کے تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے بلوچستان کے عوام کو ایک بہترین تحفہ دینگے جس کا وہ گزشتہ دس سالوں سے انتظار کررہے ہیں۔