صوبوں میں وزارت اطلاعات کا قلمدان ہمیشہ وزیراعلیٰ کے پاس رہا ہے۔ اس کے ساتھ جنرل ایڈمنسٹریشن اور امن عامہ بھی وزیراعلیٰ کی ذمہ داری رہی ہے۔ مگر حالیہ سیاسی تبدیلیوں اور سیاسی کلچر میں تبدیلی کے بعد ہر رکن اسمبلی کو وزیر بنایا گیا تو بلوچستان جیسے غریب ترین صوبے میں 60کے لگ بھگ وزیر تھے، اور جو بچ گئے انہیں مشیر بنادیا گیاجو سرکار سے اپنی تنخواہیں حاصل کرتے رہے۔ بلوچستان ایک پسماندہ اور نظر انداز صوبہ ہے جہاں پریس اور اخبارات کی اہمیت دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے۔ اخبارات ہی اطلاعات کا عام ذریعہ ہیں اور اخبارات کو ہی نظر انداز کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں ایک حکم نادر شاہی جاری ہوا کہ تمام اخبارات کو اشتہارات کی ترسیل بند کی جائے کیونکہ اس کی تقسیم میں بے ضابطگی ہوئی ہے۔ اگر ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات کی جائے اور جو ذمہ دار ہے اس کو سزا دی جائیں ناکہ تمام اخبارات کے اشتہارات بند کئے جائیں۔ یہ ایک اچھا اور نیک عمل نہیں ہے کہ گناہ گار سرکاری افسرہو اور سزا اخبارات کو ملے۔ ایسے عمل سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ گزشتہ حکومتوں اور موجودہ حکومت میں ایک واضح فرق ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت میں دو مقبول جماعتیں بھی شامل ہیں جو بلوچستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک مستقل حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کو اخبارات اور اچھے اخبار نویسوں کی مستقبل میں بھی ضرورت ہوگی تاکہ ان کی پارٹی کی پبلسٹی موثر طور پر ہو اور ان کا صحیح پیغام لوگوں تک پہنچ جائے، اس میں سرکاری افسر کا کوئی کردار نہیں ہے۔ سرکاری افسر ایک ملازم ہے وہ ان معاملات میں مداخلت کا حق نہیں رکھتا۔ دوسری جانب کرپشن کی وجہ سے سینکڑوں ڈمی اخبارات کوئٹہ سے شائع ہورہے ہیں جو حقیقی اخبارات اور اخبار نویسوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ اس کی ابتداء سرکاری افسران نے کی اور اس کی پشت پناہی بھی سرکاری افسران کررہے ہیں۔ کارروائی ان افسران کے خلاف ہونی چاہئے تھی جو درجنوں ڈمی اخبارات اور رسالے چھاپتے ہیں اور سرکاری خزانے پر کروڑوں روپے کا سالانہ ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ صوبے میں شاید درجن بھر یا اس سے کم حقیقی اخبارات ہیں جن کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اشتہارات میں کمی کے باعث یا آمدنی میں کمی کے باعث ہمیں روزنامہ آزادی کا حب ایڈیشن بند کرنا پڑا اور ہزاروں کی تعداد میں مکران، لسبیلہ اور مری بگٹی کے علاقے میں ہمارے قارئین اس اخبار سے محروم ہوگئے۔ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ تھا جس کا کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اگر معاشی پریشانی جاری رہی تومزید حقیقی اخبارات بھی بند ہوجائیں گے اور حکومت وقت صر ف ٹھگوں پر گزارا کرے جو صرف 50کاپیاں چھاپ کر کروڑوں روپے کے اشتہارات وصول کررہے ہیں اور عوام الناس تک ان کی پہنچ نہیں ہے ۔حقیقی اخبارات آج کل مالی بحران کا شکار ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر کے اخبارات وفاق اور صوبے سب ان کی زبردست انداز میں سرپرستی کررہے ہیں۔ حالانکہ کارپوریٹ سیکٹر کے اخبارات کا عوامی رائے عامہ بنانے میں آج کل کوئی کردار نہیں رہا۔ مقامی اور حقیقی پروفیشنل اخبارات نے کب سے ان کی پرانی حیثیت چھین لی ہے۔ اس کے باوجود حکومت مقامی اور حقیقی اخبارات کی سرپرستی نہیں کررہی ہے۔ ان کی سرپرستی کرنا عوامی اور منتخب حکومت کے مفاد میں ہوگا۔ کل ان کی حکومت چلی جائے گی اور یہی حقیقی اور مقامی اخبارات ان رہنماؤں کی رائے کو عوام تک مفت اور بغیر معاوضے کے پہنچائیں گے۔ ٹھگ لوگ ان سے رقم کا مطالبہ کریں گے۔ نیشنل پارٹی کئی دہائیوں سے سیاست میں ہے اور حکومت سے باہر بھی رہی ہے۔ اس وقت کارپوریٹ اخبارات نے ان کو نظر انداز کیا۔ ہر اس شخص کی خبر چھاپی جس نے ان کو چند روپے پکڑادیئے ،یہ صورت حال آئندہ نہیں رہے گی اس لیے وزیراعلیٰ کو اس معاملے میں فوری طور پر مداخلت کرنی چاہئے اور مقامی اور حقیقی اخبارات کی سرپرستی کرنی چاہئے کیونکہ کارپوریٹ اخبارات کا تعلق بلوچستان اور اس کے عوام سے نہیں ہے ان کا تعلق صرف دولت سے ہے اور Flight of capitalسے ہے بلوچستان سے دولت بٹوریں اور اس کو بلوچستان سے باہر لے جائیں۔ یہ جرم منی لانڈرنگ میں آتا ہے۔