معروف فرانسیسی ادیب ژین ژاک روسو اپنی شعرہ آفاق تصنیف ’’عمرانی معاہدہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے مگر ہر جگہ وہ زنجیروں میں جھکڑا ہوتا ہے، روسو ، والٹیر اور اس دور کے دیگر مصنفین کی تصانیف اور خیالات کا ہی نتیجہ تھا کہ فرانس کے پسے ہوئے طبقے ظلم ، جبر اور استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انقلاب فرانس برپا ہوگیا۔ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ روسو کا یہ خیال اس وقت کے فرانس کے حالات کے پیش نظر پروان چڑھا ، کچھ حد تک یہ بات درست تو ضرور ہے مگر دنیا میں رونما ہونے والے بعد کے حالات اور واقعات کے پیش نظر روسو کا کہا ہوا ہرلفظ دنیا کے موجودہ حالات میں درست ثابت ہواہے۔ انسان کو اپنی مرضی سے سوچنے اور اس کا اظہار کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے یا ہونی چائیے،اس بات کا چرچا آج کل دنیا بھر میں زوروشور سے جاری ہے، مہذب معاشروں میں اس بات کی نہ صرف پرچار کی جاتی ہے بلکہ بچوں کو اس حوالے سے باقاعدہ تعلیم اور تربیت فراہم کی جاتی ہے،کیوں کہ انسان کو یہ آزادی فطرت کی طرف سے ملی ہوئی ہوتی ہے اور دنیا بھر کے مروجہ قوانین، کنونشنز اور آئین بھی اسے اس بات کا حق فراہم کرتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظر پہلے سے موجود لیگ آف نیشنز کو ختم کرکے انیس سو پینتالیس میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے چارٹر میں انسانی حقوق کی حفاطت کی شق پہلے ہی سے شامل تھی تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد انیس سو ترانوے کو آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والے عالمی کانفرنس میں انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرام آف ایکشن تیار کیا گیا جسے ویانا ڈکلیریشن اینڈ پروگرام آف ایکشن کا نام دیا گیا ۔ کانفرنس میں ایک سو اکہتر ممالک اور آٹھ سو غیر سرکاری تنظیموں کے تقریباً سات ہزار مندوبین نے شرکت کی۔ اسی مناسبت سے ہر سال10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے،اسی مناسبت سے اس سال انسانی حقوق کے عالمی دن کی بیسویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے چارٹر اور قرارداد کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق ، اظہار رائے کی آزادی ، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم ، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کرنے والے ممالک پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو یہ تمام حقوق نہ صرف فراہم کریں بلکہ انہیں مقدم جانیں ، ایسا نہ کرنے کی صورت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ متعلقہ ملک اس چارٹر پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کررہا اور ایسے ممالک کے بارے میں وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے رپورٹس جا ئزوں اور تجزیوں میں اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اس وقت بھی دنیا کے کئی ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے، ان ممالک میں جنگ زدہ شام، عراق، لیبیا، بھارت، صومایہ، افغانستان اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور یو این کی جائزہ اور سالانہ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں خواتین، اقلیتوں، اور چھوٹی قومیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے، پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کی وجہ سے حقوق کی بات کرنے یا حکومت یا ریاست مخالف جَزبات رکھنے کی پاداش میں لوگوں کو لاپتہ کرکے انہیں عقوبت خانوں میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور باز آنے کی یقین دہانی نہ کرانے پر ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویران مقامات پر پھینک دیا جاتا ہے ۔یوں تو پاکستان بھر سے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کرنے کا سلسلہ گذشتہ ایک دہائی سے جاری ہے مگر جس شدت سے یہ سلسلہ بلوچستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، تنظیم فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق سال دو ہزار دو سے اب تک بلوچستان بھر سے پندرہ سے اٹھارہ ہزار افراد لاپتہ ہیں جبکہ اس دوران پانچ سو زائد افراد، جن میں طالب علم، سیاسی ورکر، وکلاء، شاعر، ادیب، صحافی اور دیگر شامل ہیں،،، کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے لوگوں کو تحفے میں دی گئی ہیں، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا یہ اصرار ہے کہ اگر ان کے پیاروں سے کو ئی قصور سرزد ہوا ہے کہ انہیں ملک میں را ئج قوانین کے تحت ٹرا ئل کیا جا ئے۔۔۔اور قصور ثابت ہونے کی صورت میں بلاشبہ انہیں مروجہ قوانین کے تحت سزا دی جائے تاہم انسانی حقوق کے عالمی چارٹر پر دستخط کے باوجود لوگوں کو لاپتہ رکھ کر انہیں تشدد کا نشانہ بنانا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا کہاں کی انسانیت اور کہاں کا قانون ہے۔