|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2013

quettaکراچی (آن لائن)وائس فار مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما عبدالقدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ہر فرد کو یہ خدشہ ہے کہ شاید اس کو اغواء کر لیا جائے گا،لاپتہ افراد میں کوئی قصور وار ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے ہمیں اعتراض نہیں ہوگا۔یہ بات انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرکراچی پریس کلب میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے منعقد سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انسانی حقوق کی تنظیموں ،صحافی ،کالم نگار ،دانشور اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ سمیت دیگر نے خطاب کیا ۔ جن میں کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران ،سنیئر صحافی عاجز جمالی ،سینئر صحافی سعید سربازی ،کالم نگار میر تالپور ،ناصر کریم ،نرگس بلوچ ،صدیق بلوچ ،محمد حنیف ،لاپتہ افراد کے اہل خانہ فرزانہ مجید ،علی حیدر،سیمی بلوچ ،گل نازبلوچ اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ سمیت دیگر بھی شامل ہیں ۔ماما عبدالقدیر بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے گذشتہ چار برس سے جدوجہد کر رہے ہیں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوئٹہ سے کراچی تک ساڑھے 7سو کلومیٹر تک پیدل سفر کیا اور اس دوران اپنی ماؤں اور بہنوں کے حوصلے دیکھنے کے بعد میری ہمت میں اور بھی اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اغواء نماگرفتاریاں کی گئی اور اب ان کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں جبکہ لوگوں کو اغواء کرنے کاسلسلہ تاحال جاری ہے اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے کراچی تک پیدل مارچ کے بعد اب کراچی سے اسلام آباد کے لئے مارچ کیا جائے گا اس دوران اگر میری لاش بلوچستان آتی ہے تو یہ بلوچوں کے لئے اعزازہوگا ۔سندھ ،بلوچستان اور پشاور نے مجھے کچھ نہیں کہا اگر یہ اعزاز پنجاب حاصل کرنا چاہتا ہے تو کر لے۔ماما عبدالقدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ہر فرد کو یہ خدشہ ہے کہ شاید اس کو اغواء کر لیا جائے گا۔لانگ مارچ کے دوران مجھے مختلف قسم کی دھمکیاں دی گئی کہ اس کو ختم کر دو کسی کا بھائی،والد اور کسی کا شوہر لاپتہ ہے میں کیسے یہ جدوجہد چھوڑ دوں آخری فرد کی بازیابی تک جدوجہد جاری رہے گی ۔میرے بیٹے کو اغوء کرنے کے بعد اس کی لاش پھینکی گئی اب میری زندگی ان کی بازیابی کے لئے ہے جو عقوبت خانوں میں زندگی گزار رہے ہیں ۔جن کو لاپتہ کیا گیا ہے ان کا اگر کوئی قصور ہے تو ان کو عدالت میں کیوں پیش نہیں جاتا ہے ۔ریاستی ادروں کے سامنے عدلیہ بھی بے بس ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ بلوچستان کے مسئلہ کو بھی سنجیدگی سے لیں ۔سب کی طرح مجھے بھی بلوچوں کو بھی آزاد فضاء میں سانس لینے کا حق ہے ۔کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز خان فاران نے کہا کہ ساڑھے سات سو کلومیٹر کا پیدل سفر کرکے آنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کراچی پریس کلب نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے ۔بلوچستان میں لوگوں کو جبری طور پر گرفتار کرنا اسلام کے منافی ہے ایک انسانیت کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ہم اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اپنے آخری خطبے میں فرمایا تھا کہ کسی گورے کو کالے اور کسی کالے کو گورے پر فوقیت حاصل نہیں ہے ۔بلوچستان میں بھی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔لاپتہ نوجوان ذاکر مجید بلوچ کی ہمشیرہ فرزانہ مجید نے کہا کہ اب پاکستان کے کسی ادارے سے کوئی توقع نہیں ہے عدلیہ بھی بے بس ہوچکی ہے ۔بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں انتہاء کو پہنچ چکی ہے عالمی ادارے اس کا نوٹس لیں ۔لاپتہ شخص محمد رمضان کے 12 سالہ بیٹے نے کہا کہ 14 جولائی 2010ء سے میرے والد لاپتہ ہیں آج ان کا کچھ معلوم نہیں ہے مجھے میرے والد یاد آتے ہیں میں سب سے درخواست کرتا ہوں کہ ان کی بازیابی کو ممکن بنایا جائے ۔سیمی بلوچ نے کہا کہ ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے جون 2010ء سے میرے والد کو اغواء کیا گیا تھا اس کی ایف آئی آر بھی درج کرائی تھی لیکن کوئی بھی سننے والا نہیں ہے۔گل ناز نے کہا کہ ماما عبدالقدیر بلوچ جہاں بھی جائیں ہم ان کے ساتھ ہیں ۔سینئرصحافی عاجز جمالی نے کہا کہ لاپتہ بلوچوں کے حق کے لئے آواز بلند کرنے پر مختلف قسم کی دھمکیاں دی جارہی ہیں بلوچوں کو ان کا حق ملنا چاہئے ہوسکتاہے مجھے قتل کردیا جائے لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔کراچی پریس کلب کے نائب صدر سعید سربازی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں بلوچ نے جو جدو جہد کی ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی مشرف کے دور میں بلوچوں کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ شروع ہوا اور جمہوری دور میں اس میں شدت آئی ہے کمی نہیں ہوئی ۔کالم نگار نرگس بلوچ نے کہا کہ جو لوگ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ان کے ہاتھوں میں کوئی تلوار یا چھری نہیں ہے وہ پر امن جدوجہد کر رہے ہیں۔چند ادروں کی وجہ سے صوبوں کی بلوچستان سے خلیج پیدا ہوچکی ہے آج بھی بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے ۔کالم نگار ناصر کریم نے کہا کہ میں جب اپنی ماؤں بہنوں کو سڑکوں پر دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ہم 365 دن جدو جہد کر رہے ہیں ۔ماما عبدالقدیر بلوچ سے کہتا ہوں کہ پنجاب نہیں جائیں وہاں پر تو منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے دی گئی تھی۔اسد بٹ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے لانگ مارچ کر کے بلوچستان کی ماؤں بہنوں نے تمہارے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے شاید تمہیں مشرقی پاکستان سے کوئی سبق مل جائے ۔تم خود اپنے آئین پر عملد نہیں کرتے ہو اور دوسرے سے کہتے ہوں کے آئین و قانون پر عمل کریں یہ کیسے ممکن ہے ۔