|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2013

ali-ahmed-kurd-640x480اسلام آباد(آن لائن)ماہر قانون دان علی احمد کرد نے کہا ہے کہ افسوس ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک کامیاب جج اور ایک کامیاب انسان نہیں بن سکے،عدالتیں فرعون کی طرز پر چلائی گئیں جبکہ جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا ہے کہ افتخار محمد چوہدری5سال میں عدالتوں کو بلندی پر لے جاسکتے تھے لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے علی احمد کرد نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی کی مہم میں میڈیا اور وکلاء کا کردار تھا،چیف جسٹس کروڑوں لوگوں کی محنت کے بعد بحال ہوئے لیکن بحالی کے کے بعد افتخار محمد چوہدری ان لوگوں کی خواہشات پر پورا نہیں اترے او ر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایک کامیاب جج اور کامیاب انسان نہیں بن سکے،انہوں نے کہا کہ عدالتیں فرعون کی طرز پر چلائی گئیں،ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنا عدلیہ کا کام نہیں بلکہ یہ اداروں کا کام تھا لوگ عدلیہ کی برائی کے خلاف سڑکوں پر آئے تھے اور لوگ آج بھی ایسے ہیں کہ انہیں ان کے حقوق نہیں مل رہے،چیف جسٹس کو خدا نے اختیار اور طاقت دی تھی جنرلز اور ارب پتیوں کے عدالتوں میں پیش ہونے سے حقوق کا تعلق نہیں تھا،آج بھی ہزاروں لوگ جیلوں میں پھانسی کے انتظار میں ہیں ان مقدمات پر تو کچھ نہیں ہوا،انہوں نے کہا کہ جج وہ ہے جس کے قریب جاکر سکون اور ریلیف ملے اور دل اور دماغ گواہی دے کہ ناانصافی کا خاتمہ ہوگا،انہوں نے کہا کہ جج کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہونا چاہئے کہ لوگوں کو شک ہو کہ انصاف نہیں ہوگا لیکن ارسلان افتخار کے کیس میں چیف جسٹس متنازعہ بن گئے تھے،آئین میں ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے،اٹھارویں ترمیم کے بعد چیف جسٹس کا اختیار نہیں تھا کہ وہ اس میں تبدیلی کرنے کا کہتے اسی طرح وزیراعظم کو جس طرح گھر بھیجا گیا وہ خلاف قانون تھا جبکہ جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا کہ چیف جسٹس کا عہدہ بہت اہم ہوتا ہے ،افتخار محمد چوہدری5سال میں عدلیہ کو بلندیوں پر لے جاسکتے تھے لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا ان کا کہنا تھا کہ آئین میں ترامیم پارلیمنٹ کا اختیار ہے،اٹھارویں ترمیم میں اپنی مرضی سے ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے تبدیلیاں کرائی جو غلط تھا۔