|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2013

uncleاور بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ اور ڈر تھا۔بلوچستان کے لا پتہ ا فراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کرنے والی تنظیم وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز نے عدلیہ اور حکمرانوں کی جھوٹی تسلیوں ، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے فوٹو سیشن اور اسٹیلشمنٹ کے ناروا سلوک اور روئیے سے تنگ آکر اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا آغاز کردیا۔۔ ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔۔ ابھی کوئی دو ہفتے قبل ہی بلند حوصلہ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں بچوں اور خواتین پر مشتمل لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا قا فلہ کوئٹہ سے تقریبا ساڑھے سات سو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے ستائیس دنوں بعد کراچی پہنچا تھا۔۔کراچی پہنچنے پر لانگ مارچ کے شرکاء کا والہانہ استقبال بھی ہوا تھا۔ان پر پھولوں کی پتیاں بھی نچاور کی گئی تھیں۔لانگ مارچ کے شرکاء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے والوں نے اپنی تصاویر بنا کر میڈیا کی زینت بھی بنائیں مگر نتیجہ وہی نکلا یعنی مرغے کی ایک ٹانگ۔۔۔۔۔ پر خطر اور نامساعد حالات کے باوجود لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے کوئٹہ سے کراچی کا فاصلہ جیسے تیسے طے کرلیا، اس دوران انہیں دھمکیاں بھی ملیں، لانگ مارچ ترک کرانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گیے ، مگرقافلے کے پختہ عزم لوگوں نے ہمت نہیں ہاری۔ کوئٹہ سے کراچی تک کا مکمل سفر بلوچستان کے اندر کا تھا، شناسا لوگ تھے۔ کلچر اور زبان بھی یکساں تھا، راستے پر خطر ضرور مگر نا معلوم نہ تھے، پیچھا کرنے والوں کے ہاتھ لمبے تو تھے مگر حوصلہ بڑھانے والے بھی کم نہ تھے،۔ مگر اس بار بہت کچھ مختلف ہوگا،پیدل مارچ کا ایک تہائی حصہ سندھ جبکہ دو تہائی پنجاب میں ہوگا، راستے نئے ہوں گے ، کلچر و زبان بھی یکساں نہ ہوگا،دسمبر کی سخت سردی ہوگی، بلوچستان کے عوام کو،،،،عام تاثر یہی ہے،،،،محروم ، محکوم اور مجرمانہ حد تک پسماندہ رکھنے والوں کی جاگیریں ہوں گی۔اسلام آباد کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے چوہدریوں،،،،،،،یہاں چوہدری سے مراد بالادست طبقہ ہے،،،،،کا جی ٹی روڈ ہوگا۔۔ ہاں البتہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کے مسائل اور دکھ کچھ حد تک سانجھے ہوں گے ،کوئٹہ سے کراچی تک کے سفر کے دوران مارچ کے شرکاء کا کبھی عام سیاسی کارکنوں تو کبھی قبائلی زعماء نے استقبال کرکے حوصلہ بڑھایا، انہیں پناہ دی، رات بسر کرنے کے لیے کمروں کا انتظام بھی کیا۔ لانگ مارچ کے قافلے کے شرکاء پنجاب کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ سے نہیں البتہ عام لوگوں سے ان کے حوصلے بڑھانے کی توقع تو ضرور رکھتے ہیں، کیونکہ بلوچستان کے لوگوں کو پنجاب سے ہمیشہ ان کے روئیے کی شکایت رہی ہے ، یہ شکایت کبھی وسائل پر غاصبانہ قبضے کی تو کبھی انہیں ان کے بنیادی حقوق سے مجرمانہ حد تک محروم رکھنے کی ہے، مگر اس بار پنجاب کے عوام کے پاس ایک نادر موقع ہاتھ آیا ہے کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے اہل خانہ، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، کا ساتھ دیکر ان کی آواز میں آواز ملائیں تاکہ بلوچستان کے لوگوں کے دلوں میں موجود پنجاب سے متعلق شکایات کورفع کرنے میں مدد مل سکے۔ اب کچھ بات ہو جائے عدلیہ کی۔ ملک کے چوٹی کے سیاستدانوں ، اشرافیہ کی طرح بلوچستان کے ڈومیسائل پر سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بننے والے ریٹائرڈ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بھی بلوچستان کے عوام کو مایوس کیا۔۔اپنی تمام تر جوڈیشل ایکٹیو ازم ، اپنے سو موٹو ایکشنز، پیشیوں کے دوران اپنے نپے تلے ریمارکس کے ذریعے وہ ٹی وی چینلز کے لیے بریکنگ نیوز کا ذریعہ تو بنے مگر نہ بن سکے تو بلوچستان کے مظلوم اور نہتے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے زخموں کی دوا۔اپنے مبینہ سخت گیر روئیے کے ذریعے وہ ملک کے پہلے متفقہ وزیر اعظم کو توہین عدالت کی پاداش میں گھر بھیجنے والے جسٹس افتخار چاہدری، اکیس گریڈ کے ایک آئی جی ایف سی اور انیس و بیس گریڈز کے چند افسران سے اپنا حکم منوانے سے قاصر رہے اور صرف تنبیہوں پر اکتفا کرکے بالآخر گھر چلے گئے۔اسی طرح بلوچستان کے عوام بلوچستان ہی سے تعلق رکھنے والے جسٹس جاوید اقبال کمیشن رپورٹ سے بھی نالاں ہیں کہ جس سے ان کی داد رسی نہ ہوسکی۔ دوسری جانب دن رات بلوچستان کی محرومیوں کا دکھڑا رونے اور ماضی کے حکمرانوں کے رویوں پر نوحہ کناں موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مسئلے پرخاموش ہیں، اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں سپریم کورٹ انہیں ،،،وزیر اعظم کو،،،، بطور وزیر دفاع،،،،،جب وزیر دفاع کا عہدہ وزیر اعظم کے پاس تھا،،،، عدالت طلب نہ کرلے ،وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف کو وزیر دفا ع کا اضافی چارج دے کر دامن صاف بچا گئے۔ سپریم کورٹ میں پیشی اور جج صاحبان کی پوچھ گچھ،،،یہ پوچھ گچھ زیادہ تر سیاستدانوں سے ہی ہوتی تھی،،،، کے بعد وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی کم دفاع لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ملنے کراچی پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ بھی پہنچے۔ اور ،،،،بقول ماما قدیر بلوچ کے،،،،،ہمیں جھوٹی تسلیاں دیں۔ تسلیاں دینے والوں میں بلوچستان کی حکمران جماعت نیشنل پارٹی کے قا ئم مقام صدر سینیٹر حاصل بزنجو بھی شامل تھے،،، کہ جن کے اس اعلان کے بعد کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کا سلسلہ رک گیا ہے،۔۔ اسی دن ان ہی کے آبائی شہر سے دو افراد کی لاشیں ملیں۔۔لاپتہ افراد کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر حاصل خان بزنجو کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ان کی جماعت کو بلوچستان میں اقتدار ضرور ملا ہے مگر اختیار نہیں ملا۔ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی ہمارا کوئی دم تحریر بھی تھا وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کا لاپتہ افراد کے خلاف احتجاج گزشتہ چار سالوں سے جاری ہے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کبھی کراچی تو کبھی اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں، عدالتوں کا دروازہ کھٹکٹھاتے ہیں، پیشیاں بھگتے ہیں، پریس کلبز کے سامنے اجتجاج کرتے ہیں، ٹریبیونلز اور کمیشنز کے سامنے پیش ہوتے ہیں، جھوٹی تسلیاں تو کبھی دھمکیاں وصول کرتے ہیں مگر حوصلہ نہیں ہارتے، کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ کی وجہ سے ماما قدیر بلوچ اور اس کے ساتھیوں کے پاؤں میں چھالے پڑ ھ جانے اور بری طرح زخمی ہونے کی وجہ سے اور ابھی ان کے زخم بھی مکمل طور پر بھر نہ پا ئے تھے کہ انہوں نے نئے عزم کے ساتھ تقریباً سترہ سو کلو میٹر طویل پیدل لانگ مارچ کا آغاز کردیا۔ پچھلے چند ماہ کے دوران عدالت عظمیٰ بھی لاپتہ افراد کیس اور بلوچستان امن عامہ کیس کی سماعتوں کے دوران ایف سی اور حساس اداروں کے بعض اہلکاروں کو لاپتہ افراد کے کیسز میں ملوث اور ذمہ دار قراردے کران کی سرزنش بھی کرچکی ہے مگر مجال ہے کہ کوئی ادھر سے ادھر یا ٹھس سے مس ہوا ہو۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ایف سی بلوچستان کے انسپکٹر جنرل کو توہین عدالت پر اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا مگر موصوف عدالت میں پیش ہونے کی بجائے،،،بقول ایک واقف کار کے،،،،بیماری کا بہانہ بناکر اسپتال میں لیٹ گئے۔ملک میں آزاد میڈیا اور متحرک عدلیہ کے ہوتے ہوئے بھی قانون نافذ کرنے والے اورحساس و خفیہ اداروں کا یہ رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ خود کو کسی قانون یا ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد کے کیس کا بڑا چرچا رہا اور بالآخر سات لاپتہ افراد کو عدالت کے سامنے پیش کردیا گیا مگر بدقسمتی سے ان میں کسی بھی فرد کا تعلق بلوچستان سے نہیں ہے۔ اور نہ ان پینتیس افراد کی فہرست میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والا کوئی لاپتہ شامل ہے۔ یوں تو ملک بھر سے ہزاروں افراد کے لاپتہ ہونے والی رپورٹس زبان زد عام ہیں مگر بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ دیگر علاقوں کے لاپتہ افراد صرف لاپتہ رہتے ہیں مگر بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کی مسخ شدہ لاشیں ان کے ورثاء کے حوالے کی جاتی ہیں۔ جنرل ر پرویز مشرف کے دور سے لوگوں کو لاپتہ کیے جانے کا شروع ہونے والا یہ سلسلہ پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں بھی جاری رہا اور اب حکومت کی تبدیلی کے باوجود اس کی شدت میں کمی واقع نہیں ہوئی جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ملک میں جمہوریت رائج ہونے کے باوجود اختیار بلوچستان کی طرح وفاق میں بھی مکمل طور پرسویلینز کے حوالے نہیں کیا گیا اور ملک کو آج بھی ایک سیکیورٹی اسٹیٹ کی طرح چلا کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ خیالات رکھنے والے شہریوں کو ملک دشمن تصور کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ وہی سلوک روا جاتا ہے جو ستر اور اسی کی دہائیوں میں چلی اور ارجنٹائن میں روا رکھا جاتا رہا۔